بلائنڈ کرکٹ ٹیم کو شکست ،پنجاب پولیس نے مطالبہ کر دیا
بلائنڈکرکٹ ٹیم کمال پر کما ل کر تی رہی اور ناقابل شکست رہتے ہوئے آخر ی میچ میں پہلا میچ ہار گئی جس کے بعد یہ ورلڈ کپ ہی ہار گئی ۔اس شکست پر اور کسی کو غصہ آئے یا نہ آئے لیکن پنجاب پولیس اس پر شدید سیخ پا ہے۔
پنجاب پولیس نے مطالبہ کر دیاہے کہ ٹیم جیسے ہی واپس آئے ہمیں اطلاع کی جائے اور ہم ان کا استقبال کرنے کے لیے ائرپورٹ جائیںگے اور انہیں مزید ہماری ’میزبانی ‘میں دیا جائے تاکہ ہم انہیں وہ شا ٹس سکھا سکیں جو شاٹس یہ کھیل کر ورلڈ کپ جیت سکتے تھے ۔تو میں اس سلسلے میں اس عجیب وغریب مطالبے کا جواز پوچھنے ان صاحب کے پاس پہنچ گیااوران سے سوال کیا کہ آپ ان کو کیسے اور کون سی ایسی شاٹس سکھائیں گے جو کوچ نہیں سکھا سکتے تو ان صاحب نے جواب دیا کہ اگر کوچ سکھا سکتا تو یہ میچ ہار کر پاکستان واپس آتے ،صاحب کا کہنا تھا جو کام ہم کرتے ہیں وہ بھی یہی کرتے ہیں بس سٹائل میں تھوڑا سا فرق ہے ۔میں نے پوچھا کہ سٹائل میں کیا فرق ہے تو صاحب نے جواب دیا کہ "چلانا تو ڈنڈا ہی ہو تا ہے"جو ڈنڈا وہ چلاتے ہیں وہ تھوڑا چوڑا ہوتاہے اور جو ڈنڈا ہم چلاتے ہیں وہ پتلاہوتاہے لیکن لگتا سیدھا نشانے پر ہے بس انہیں پتلے ڈنڈے کے نشانے سے "آشنا "کروانا چاہتے ہیں پھر دیکھئے گا ان کی دوڑیں نہ تو وہ خود پچ پر رکیں گے اور نہ ہی کوئی گیند ان کے ڈنڈ ے سے ٹکرائے بغیر گزرنے کی ہمت کرے گی ۔
اس پر انہوں نے مزید پرانی یادوں کے پل باندھتے ہوئے ایک حالیہ قصے کو چھیڑ لیا جس میں انھوں نے اسمبلی ہال کے سامنے کچھ نابینا افرادکی ڈنڈا پریڈ کروائی تھی ۔اس واقعہ پر میں نے شدید افسوس کا اظہار کیا لیکن انہوں نے اس ڈنڈا پریڈ کا بھی ایسا مثبت پہلو میرے سامنے رکھا کہ میں یقین نہ کر سکاان کا کہنا تھا کہ اگر اہم ان کی ڈنڈا پریڈ نہ کرتے تو پنجاب حکومت ان کا کوٹہ 2فیصد سے بڑھا کر کبھی بھی 3فیصد نہ کرتی اوران صاحب کا کہنا تھا کہ ہمارا ڈنڈاجس جس کو پڑا ہے وہ کامیاب ہوا ہے ۔
وہ صاحب پنجاب پولیس کے ڈنڈوں کی کہانیاں اتنی پر اعتمادی سے سنا رہے تھے کہ اگر وہ کسی شخص کو ڈنڈے مارنے کی شکایت میں عدالت میں کھڑے ہوتے تو شائد جج انھیں رہا کر دیتا لیکن میں ابھی بھی تشویش میں مبتلا تھا تو میں نے مزید ان سے کہا کہ میں آپ کی مثالوں سے قائل نہیں ہو سکا کہ آپ کرکٹ ٹیم کو کیسے ٹرین کریں گے ۔
تو پھر انہوں نے مزید پنجاب پولیس کی قابلیت کا پہاڑکھڑا کرتے ہوئے کچھ پرانے قصے چھیڑ ے جس میں انہوں نے بات کرتے ہوئے نرسوں کا ذکر کیا تو میں ذراپریشان ہو ا اور پوچھا کہ صاحب وہ تو آپ نے ایک انتہائی افسوسنا ک کام کیا تھا نرسوں کی پریڈکر کے تو صاحب نے جواب دیا کہ و ہ دراصل ہم نے ان کودکھایا تھا کہ نشانہ کیسے لگاتے ہیں ۔میں نے پوچھا صاحب کہ نرسوں کا نشانے سے کیا تعلق تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک بار ڈنڈے کی "چھلتر "میرے ہاتھ میں لگ گئی تھی جس کی وجہ سے مجھے انفیکشن ہو گیا تومیں جناح ہسپتال چلا گیا جہاں انہوں نے ایک ٹیکا لگانے کے چکر میں میر ی تین چار "ناڑوں "میں "موریاں" کر دیں مگر وہ اصل نشانے پر ٹیکا نہ لگا سکیں ۔پھر ایک دن میرا سامنا ان سے ڈیوس روڈ پر ہوا تب میں نے سوچا کہ آج ان کو نشانہ لگانا سکھا ہی دیں جس د ن سے ان کو ڈنڈے کا نشانہ بنایا ہے اس دن سے جناح ہسپتال سے کسی کو غلط ٹیکالگنے کی رپورٹ نہیں آئی ۔
اس سلسلے میں انہوں نے مجھے بھی اس خدمت کی پیش کش کی اور کہا کہ یہ جو تم مجھ سے سوال کر رہے تو اگر تم بھی ہم سے دو چار ڈنڈے کھا لو تو تمھارا مستقبل بھی اچھا ہو جائے گا ۔جب میں نے یہ بات سنی تو میں نے وہاں سے رفو چکر ہونے میں ہی بہتری جانی اورحالانکہ وہاں صاحب نے کریلے گوشت پکایا ہوا تھا لیکن دل پر پتھر رکھ کر وہاں سے غائب ہو گیا ۔