’میں لوگوں کو کہہ کر جاتا تھا کہ عمرہ پر جارہا ہوں لیکن پھر وہاں جاکر۔۔۔‘ افغان طالبان کے رہنما نے ایسی بات کہہ دی کہ سب دنگ رہ گئے
کابل(مانیٹرنگ ڈیسک)15سال کی جدوجہد، 500ارب روپے خرچ کرنے اور ڈیڑھ لاکھ جانیں گنوانے کے بعداب امریکہ افغانستان کی جنگ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ایسے حالات میں افغانیوں کو اپنی لڑائی خود لڑنے کے لیے تنہاءچھوڑا جا رہا ہے جب ملک میں شدت پسندی ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے۔اس صورتحال سے بچنے کے لیے افغان رہنماءایک اور عالمی طاقت کی طرف دیکھنے لگے ہیں اور وہ سعودی عرب ہے۔اب افغانستان میں جمہوریت کو فروغ دینا ہے یا طالبان کی حکومت لانی ہے، اس فیصلے میں سعودی عرب کا بنیادی کردار ہو گا۔
’ہمارے پاس 29 ارب ڈالر ہیں‘ بھارت کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں ملک کے امیر ترین آدمی سے بھی زیادہ مالدار خاندان سامنے آگیا لیکن حکومت نے تحقیقات کی تو یہ لوگ دراصل کون نکلے؟ ایسا انکشاف کہ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق افغان حکومت کی طرح اس کے خلاف برسرپیکار قوتوں کو بھی سعودی عرب سے مدد ملتی رہی ہے۔ ماضی کی طالبان حکومت کے وزیرخزانہ نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ”میں لوگوں کو یہ کہہ کر سعودی عرب جاتا کہ عمرہ کرنے جا رہا ہوں۔ وہاں سعودی شیخ بھی عمرہ کرنے آتے تھے جن سے میں افغان جنگ کے لیے مالی مدد کی اپیل کرتا۔ صرف سعودی باشندے ہی نہیں، دیگر ممالک کے لوگ بھی ہماری مدد کیا کرتے تھے۔ میں دیگر ممالک کے لوگوں سے صرف سعودی عرب میں ہی ملتا تھا۔یہاں سے ملنے والی رقم مختلف طریقوں سے افغانستان پہنچائی جاتی تھی۔ کچھ رقم پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود بینکوں میں منتقل کرکے وہاں سے افغانستان لیجائی جاتی، حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے پہنچائی جاتی تھی۔“
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سابق مشیر ولی نصر کا کہنا تھا کہ ”سعودی عرب میں کام کرنے والے افغان شہریوں پر جبری ٹیکس عائد کرکے بھی کافی رقم اکٹھی کی جاتی تھی جو افغانستان میں موجود ان کے خاندانوں سے وصول کی جاتی۔ سعودی ایک بار پھر افغانستان کے حالات میں ملوث ہو رہے ہیں۔ افغانستان ان کے لیے بہت اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1980ءکی دہائی میں انہوں نے افغانستان میں بھاری رقوم صرف کیں۔“