وزارت عظمیٰ کا امیدوار: بلاول یا عمران خان؟

وزارت عظمیٰ کا امیدوار: بلاول یا عمران خان؟
وزارت عظمیٰ کا امیدوار: بلاول یا عمران خان؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عمران خان تو وزارت عظمیٰ کے شروع ہی سے امیدوار ہیں بلکہ 2013ء کے الیکشن میں فل فلوٹی وزیراعظم بنے ہوئے تھے مگر ان کے ایکسیڈنٹ نے ان کو ہسپتال ہی میں نہ ڈالا، وزارت عظمیٰ سے بھی محروم کردیا۔ وہ اگرچہ نتیجے میں صرف 33 سیٹیں ہی حاصل کر پائے مگر وزیراعظم کے خواب ان کو وزارت عظمیٰ کے نشے سے باہر نہیں آنے دیتے۔ ان کی دوسری سابقہ زوجہ محترمہ ریحام خان نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ’’دھرنے کے دوران میں عمران خان نے مجھے فرمایا کہ ایک دو ماہ کی بات ہے، میں وزیراعظم بن جاؤں گا پھر شادی کرلیں گے‘‘۔ دھرنے کے کنٹینر پر عمران خان اپنے کارکنان اور پاکستان کے عوام سے تو یہ فرماتے تھے کہ ’’جلد نیا پاکستان بنے تاکہ میں شادی کرلوں‘‘ مگر وہ اندرون خانہ شادی فرما چکے تھے اور بعد کی اطلاعات کے مطابق وہ ماہ محرم میں 6 یا 7 تاریخ کو حبالہ نکاح میں آچکے تھے، یہ وہ ایام ہیں جب ہمارے ہاں نکاح و شادی کو نہایت برا اور غلط تصور کیا جاتا ہے حالانکہ شرعاً اس طرح کی کوئی قید نہیں مگر ایک معاشرتی طبقہ، ان ایام میں سوگ کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کی دل آزاری سے بچنے کی خاطر ان ایام میں خوشی کی تقریبات سے بچنے اور احتیاط کا حکم دیا جاتا ہے اور عمران خان تو جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو ہر حال میں ان ایام محرم میں سوگ کی کیفیت میں ہوتا ہے، اسی لیے اس سال رائیونڈ جلسے میں انہوں نے محرم کے بعد تحریک چلانے کی بات کی تھی (وہ دوسری بات کہ وہ اس کا بھی خیال نہ رکھ سکے اور دوران محرم ہی وزیراعظم نواز شریف کے خلاف میدان میں کود پڑے)۔


عمران خان تو دھڑلے سے وزارت عظمیٰ کے (زور و شور سے) امیدوار تھے ہی، پیپلز پارٹی کے چیئرمین نوجوان بلاول زرداری (جو بلاول بھٹو کہلاتے ہیں) نے بھی لاہور کے بلاول ہاؤس میں پیپلز پارٹی کی (کئی روزہ) تاسیسی تقریبات میں برملا فرما دیا ہے کہ ’’2018ء میں پاکستان کا وزیراعظم میں (بلاول) ہوں گا‘‘۔ انہی تقریبات میں انہوں نے فرمایا (اور عجیب انداز میں تالیاں بجاتے ہوئے فرمایا) کہ ’’پاکستان کا صدر ایک بار پھر زرداری ہوں گے‘‘۔ (ان کی تالیوں کے انداز پر مزاحیہ، طنزیہ یا مخاصمانہ انداز میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے مگر ہم ان کے انداز مخصوص کو نظرانداز کرکے) صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’حضور! آپ خود وزیراعظم‘ آپ کے والد گرامی قدر زرداری صاحب صدر پاکستان اور آپ کے بقول چاروں صوبوں کے وزیراعلیٰ بھی پیپلز پارٹی کے بن جائیں مگر یہ تو بتائیں کہ آپ نے سیاسی میدآن میں کیا کارنامہ سرانجام دے لیا ہے کہ پاکستان کی عوام ماضی کو بھول کر آپ پر والہ و شیدا ہوکر رہیں گے؟


آپ نے لاہور میں جو پارٹی کی تاسیسی تقریبات کی ہیں وہ کسی بھی طور مثالی قرار نہیں دی جاسکتیں۔ یہ تقریبات خود پیپلز پارتی کیلئے حوصلہ افزا ضرور ہوں گی کہ وہ پیپلز پارٹی جو گزشتہ دور میں کہیں نظر نہ آتی تھی اور جو 2013ء کے الیکشن (اور بعد میں پنجاب کے تمام ضمنی الیکشنوں میں) نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی، ان ایام میں ان تقریبات کے نام پر (بھلے ایک چار دیواری ہی میں سہی) نظر تو آ رہی تھیں وہ اپنی وزارت عظمیٰ اور چاروں صوبوں میں وزارت علیا کی بات کر رہے ہیں مگر ان کو یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ اس پوزیشن میں آچکے ہیں کہ وہ عمران خان کی ’’وزارت عظمیٰ‘‘ کو چیلنج کر پائیں؟ کیا ان کی قیادت میں پیپلز پارٹی پنجاب خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا مقابلہ کر پائے گی؟ صوبہ سندھ میں پہلے بھی پیپلز پارٹی جیتی تھی مگر سید قائم علی شاہ کی حکومت نے جو کارکردگی دکھائی، اس نے پیپلز پارٹی کی لٹیا ڈبو دی تھی، اسی خاطر نیا وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کو بنایا گیا تھا۔ کیا بلاول سمجھتے ہیں کہ نیا وزیراعلیٰ لاکر وہ سندھ میں اپنی عزت بچالیں گے؟


انہوں نے کراچی میں اپنے میئر کی بات تو ضرور کی ہے مگر یہ بھول گئے کہ ان کی پارٹی کسی دور میں بھی کراچی پر اپنا تسلط قائم نہیں کرسکی، وہ کس بل بوتے پر آئندہ کراچی شہر پر قبضے کا نعرہ لگا رہے ہیں؟ اس بات سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان کہ جن کو بعض نادیدہ طاقتوں نے مواقع فراہم کئے تھے کہ وہ پاکستان کی سب سے ’’بڑی پارٹی‘‘ کے قائد بن جائیں، وہ (خفیہ ہاتھوں کے مہیا کردہ تمام وسائل اور مواقع کے باوجود) اپنی ذاتی عادات و خصوصیات کے باعث عوامی مقبولیت کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچنا تو دور کی بات بلندیوں کو چھونے تک بھی نہ پہنچ سکے، بعد میں تو وہ مسلسل رجعت قہقہری کا شکار رہے اور ان کے ’’یو ٹرن‘‘ اور انداز سیاست نے ان کی مقبولیت کے غبارے سے مسلسل (یا یوں کہہ لیں آہستہ آہستہ) ہوا کم کرنی شروع کردی۔ ہمارے مربی قدرت اللہ چودھری نے ان کی اس حالت سیاست پر یگانہ چنگیزی کے شعر میں کیا خوب تبصرہ فرمایا ہے (ان کی قیادت اور وزارت عظمیٰ کی خواہش پر) کہ :


خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ، مگر بنا نہ گیا
ہر گزرتا دن، ان کی حالت زار کو واضح کر رہا ہے بلکہ اسلام آباد بند کرنے کے اعلان کے بعد جو ان کا اور ان کی سیاست کا حال ہوا، اس کے بعد وہ جس طرح (سپریم کورٹ کی سماعت کے نام پر) غائب ہیں لوگ پوچھتے ہیں ’’عمرآن خان آج کل کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟‘‘ ایک طرف وزارت عظمیٰ کے تگڑے امیدوار عمران خان کی (منظر عام سے) غیابت ہے تو دوسری طرف نئے دعویدار بلاول زرداری کی بلند بانگ انٹری ہے۔ ذرائع ابلاغ میں عمران خان نظر نہیں آ رہے جبکہ تاسیسی تقریبات کے بہانے بلاول زرداری چھائے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ’’پژ مردہ‘‘ رہنماؤں کو یہ صورتحال خوب بھا رہی ہے اور وہ خوب چہک رہے ہیں مگر وہ یہ بتانے سے یکسر قاصر ہیں کہ ’’آخر وہ کیا وجوہ اور کارنامے ہیں کہ جن کی بدولت وہ نواز لیگ سے زیادہ عوام کی نظروں اور دلوں میں جگہ بنا پائیں گے۔۔۔؟ پیپلز پارٹی کے بارے میں ذرائع ابلاغ کے روایتی تجزیہ کار اور الیکٹرانک میڈیا کے ’’برائلر اینکر‘‘ عوامی رائے اور عوامی سوچ سے ہٹ کر خواہ کچھ بھی کہتے رہیں حقیقت یہ ہے کہ ’’اس بار یعنی 2018ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی بہرحال تحریک انصاف سے زیادہ طاقتور بن کر ابھرے گی۔ پہلے بھی مجموعی طور پر پیپلز پارٹی دوسری بڑی پارٹی ہے یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اس کا اپوزیشن لیڈر اس کا ہے اور سینیٹ میں اس کی ’’حاکمیت‘‘ ہے، اب پنجاب اور خیبر پختونخوا سے بھی 2018ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی ابھرے گی یعنی تحریک انصاف سے بہر حال میں آگے ہوگی۔ ہوسکتا ہے بعض لوگ میرے اس تجزیے پر آگ بگولہ ہوں یا چیں بہ جبیں ہوں، مگر یہ حقیقت ہے پیپلز پارٹی بہرحال تحریک انصاف کی نسبت بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے۔ دوسرے وہ ہاتھ جو اپنے معجزے دکھاتے ہیں وہ تحریک انصاف کی قیادت سے مایوس ہوچکے ہیں وہ بلاول کو موقع دینا چاہتے ہیں (یا یہ کہہ لیں کہ آزمانا چاہتے ہیں!)۔


پچھلے (2013ء) الیکشن میں پیپلز پارٹی، ق لیگ سے اتحاد کے نام پر یا کسی اور وجہ سے اپنے امیدواروں پر توجہ نہ دے سکی تھی بلکہ کما حقہ فائدہ نہ اٹھاپائی۔ میرے اپنے ضلع (سیالکوٹ) میں پیپلز پارٹی کا (سوائے ڈاکٹر فردوس اعوان کے) کوئی امیدوار نہ تھا۔ غلام عباس کی تمام مقبولیت کے باوجود اس کو ق لیگ پر قربان کر دیا گیا اور ق لیگ کا امیدوار کھڑا ی نہ رہ سکا۔یہی صورت حال دوسرے علاقوں کی تھی، تحریک انصاف خالی جگہ صحیح طور پر پُر بھی نہ کرسکی۔ اس بار پیپلز پارٹی توجہ دے گی تو تحریک انصاف فائدہ نہ اٹھا پائے گی۔ اس متوقع صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ نو آموز بلاول بہرحال عمران خان سے کہیں زیادہ طاقتور امیدوار ہوگا۔ مگر حضور! تمام تر طاقت و قوت کے حصول کے باوجود بلاول زرداری (یا عمران خان) مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کا مقابلہ کرنے کی پوزینشن میں ہوگا؟ اگر حالات تبدیل نہ کردیئے جائیں تو وزارت عظمیٰ کے دعوے محض خواہش ہی رہ جائیں گے!*

مزید :

کالم -