پی پی کی ادھوری کہانی

پی پی کی ادھوری کہانی
 پی پی کی ادھوری کہانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قطرہ قلزم سے اور شعاع خورشید سے جڑ کر ہی باقی اور بامعنی رہی ہے۔پانی کی روانی اور ہوا کا چلاؤ بھی غلا ظت کم کرنے کی نشانی ٹھہری ہے۔گماں گزرتا ہے پاکستانی سیاست اور جمہوریت پر سے خزاں کے سائے سمٹنے چلے ہیں۔پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس آنے والے انتخابات کی آہٹ کے پٹ چوپٹ کھولتا ہے۔ پنجاب کابینہ میں توسیع اور مقامی حکومتوں کا چناؤ ن لیگ کی صفیں درست کئے جانے کا سراغ اور سندیسہ دیا کئے ۔تحریک انصاف کے چیئرمین خان صاحب کا تو خیر مرض بھی پرانا اور معالج بھی۔سیاسی مستقبل اور آنے والے انتخابات کی تیاری پر یہاں تو اللہ ہی اللہ ہے ۔مطلب کہ انہیں کب خبر منزل دور ہو تو مسافر کو منہ اندھیرے رختِ سفر باندھنا پڑتا ہے۔مشرف صاحب کی دیرینہ خواہش بھی ملاحظہ کیجئے کہ منزل پر تو نگاہ رکھتے ہیں مگر آہ!ثُمَ آہ کہ راستہ نہیں رکھتے۔چودھری شجاعت صاحب کا مشورہ؟چودھری صاحب ایسے نادر لوگ پاکستان کی سیاست اورروایت میں بس ایک ہوئے۔’’ایسا کہاں سے لائیں تجھ سا کہیں جسے‘‘۔


ایک تو چودھری شجاعت صاحب کی کبرِ سنی کا خیال ،دوسرا ان کی علالت کا ملال کہ وہ جملوں کی پوری ادائیگی اورالفاظ کی درست ترتیب پر قدرت نہیں رکھتے۔ان کی عوامی اردو اور اوپر سے ستم کہ وہ دو چار لفظ بول کر ہانپنے لگتے ہیں۔۔۔گاہے ماہے تو لفظ ،معنی و مفہوم اور سانس سب ٹوٹنے لگتے ہیں تو پھر بندے کو بات خاک سمجھ آئے۔دیکھنے والوں نے دیکھا کہ لال مسجد اور اکبر بگٹی کے معاملے پر ان کی مختاری کو موت آئی اور مجبوری جی اٹھی۔۔۔تو پھران کی آنکھیں بھی نمناک ہو گئیں۔کہا جاتا ہے کہ وہی مناسک اور حرکات اگر باربار دہرائی جائیں تو شاید پھران کا لطف جاتا رہتا ہے۔مولانا فضل الرحمان مد ظلہ العالیٰ کے منطقی مباحث،شیخ رشید کے سیاسی لطیفے،عمران خان کی فسانہ سرائی اور مولانا طاہرلقادری دامت برکاتہم عالیہ کی شعلہ بیانی۔۔۔اب ان میں پرانا اور پہلا سا کیف اور تازگی کی رعنائی کہاں۔البتہ چودھری صاحب کی جانب سے مشرف صاحب کو عنایت کئے گئے مشورے میں عبر ت کا خاصا ساماں ہے پنہاں۔
کہاں وہ دن کہ چھوٹے چودھری صاحب اور سابقہ نکے وزیراعظم پرویز الہیٰ مشرف صاحب کو دس دس بار وردی میں منتخب کرانے کی بات کہتے نہ تھکتے تھے۔۔۔اور کہاںیہ دن کہ مابدولت!اب آپ آرام سے آرام کیجئے گا۔کہاں وہ دن کہ مشرف صاحب کی درازی قد سے بڑی بڑی سرو قامتی بھی پناہ مانگتی تھی اور کہاں یہ کالی راتیں کہ آج ہر پست قامت ان کا رہبر ٹھہرا۔کل تک جو لوگ ان پر گل باشی کرتے تھے ،آج وہی طعنے بازی کرتے نہیں تھکتے۔نیرنگی زمانہ اور گردش ایام کی بوقلمونی تو دیکھئے کہ کل تک ان کے پاؤں پڑنے والے آج ان کی پگڑی پکڑتے ہیں۔پھر پرویز مشرف صاحب کی بھی پرانی خواہشیں اور خیال،خوئے سلطانی کے انہونے سپنے اس پر کیا کہئے؟صد آفریں!مصلح الدین راجیکی کیا کہہ گزرا:


ہجر کی شب نالہ دل وہ صد ا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
مٹھیوں میں خاک بھر کر آئے دوست وقت دفن
عمربھر کی وفاؤں کا صلہ دینے لگے
تکلف برطرف!مشرف صاحب کی تقدیر اپنے حصے کی خوشہ چینی کر چکی اور اب فرمانروائی یا جمشید جاہی کے پانی کاایک گھونٹ بھی ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر سکتا۔


بات دراصل آج پی پی کے یوم تاسیس پر کرنا تھی مگر بات پھر وہی کہ تخلیقی خیال دماغ میں کوندے کی طرح لپکتا ہے اور مصنوعی یا کسبی تخیل قطار در قطار اترا کئے۔سنجیدہ اور تجربہ کار تجزیہ نگار تو خیر بلاول کے سیاسی مستقبل پر محض مسکرایا کئے کہ نوابزادہ نصراللہ خاں کی زبان میں’’کائی شے ہی کوئی نہیں‘‘۔دیکھئے چودھری شجاعت صاحب کی کبر سنی اور بلاول کی کم سنی اپنی جگہ اور تسلیم کہ تجربے کا متبادل کوئی نہیں اور نعم البدل تو کہیں بھی نہیں۔سیاسی گفتگو میں مذکر مونث اور واحد جمع کی اغلاط پر صاد،ہوش نہیں جوش اور تحمل نہیں طیش اور گا ہ گاہ ان کی بچکانہ اور غیر ذمہ دارانہ حرکت یا جذبات پر بھی شاید گرفت بنتی ہو۔اس کے ساتھ یہ بھی ماننا اور جاننا چاہئے کہ وہ ذوالفقار بھٹو کا جمہوری اثاثہ اور بے نظیر بھٹو کاسیاسی ورثہ لے کر نکلا ہے۔پی پی کی جذباتی انگاری دبی ہے مگر بجھی نہیں۔اس کا ووٹر یا سپورٹرپارٹی سے روٹھا سہی لیکن یہ اللہ میاں کی گائے جاتی کہیں نہیں کہ اپنے کھونٹے سے ہی بندھی رہنے کی عادی ٹھہری۔بلاول کی سیاسی چلت پھرت،انتخابی آمدورفت اور اپنے کارکنان سے میل ملاقات کارِ لایعنی یا سعی رائیگاں کیوں کر جائے گی۔بھائی رنگ تو چڑھے گا چوکھا نہ سہی ہلکا پھلکا سہی۔


دراصل بلاول کو بابر اعوان خطابت کے حوالے سے جس راستے پر ڈال گئے تھے۔۔۔وہ سمت درست نہیں۔قمرزماں کائرہ اور خورشید شاہ ایسے سنجیدہ لوگوں کو سوچنا چاہئے ۔بلاول کو بھی غوروفکر دراز کرنا ہو گا کہ ان کی پیپلز پارٹی اپنی پرانی سیاسی پذیرائی پر اب تا دیر باقی و برقرار نہیں رہ سکتی۔نیا زمانہ ،نیا آہنگ،نیا چیلنج اور نیا رنگ اور نئی منزلیں ہیں۔۔۔سو اب رہنما کے طور و اطوار ،سلیقے و قرینے اور سوچ و زاویئے بھی نئے ہی کام دیں گے۔پی پی کی ایک جذباتی کھیپ تو کب کی کھیت رہی،اب کل کے نو نہال نوجوان ہیں اور لڑکے لپاڑے بڑھاپے کی دہلیز سے آن لگے ہیں۔روٹی،کپڑا اور مکان کا خواب تو بہت فروخت ہو چکا،اب لوگ تعبیر مانگتے ہیں۔سچ پوچھئے تو ابھی پی پی کی کہانی ادھوری ہے،نانا اور ماں کے بعد شاید یہ پوری ہو۔اس کے بعد؟پھر چراغوں میں روشنی رہے نہ رہے سحر ہو رہے گی۔*

مزید :

کالم -