اُردو ادب روشن خیالی کی راہ پر

پاکستان میں جب ہم اصطلاح روشن خیالی استعمال کرتے ہیں تو فوراً ہمارے ذہن میں ایک منفی تاثر قائم ہو جاتا ہے کیونکہ مغرب سے درآمدہ چند ایک اصطلاحات ہمارے ہاں شجرِ ممنوعہ بن چکی ہیں بالخصوص سیکولرازم اور روشن خیالی چنانچہ سیکولرازم کو ہمارے ہاں علماء لادینیت سے تعبیر کرتے ہیں اور روشن خیالی کو فحاشی سے، الامان والحفیظ، جھوٹ اور مقدس دجل کی بنیاد پر قائم ہونے والے سماجی پیراڈائمز انسانی معاشروں کو اندر سے کھوکھلا اور نفاق و جہالت سے لت پت کر دیتے ہیں اور ہر زمانے میں روشن دماغ قومیں حماقت گزیدہ اقوام پر ٹھٹھہ مارتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہیں روشن خیالی کے لئے انگریزی میں ایک بہت ہی جامع اور نہایت خوبصورت اصطلاح( Enlightenment ) استعمال ہوتی ہے جس کے حقیقی معانی یہ ہیں کہ" ذہن ہر قسم کی پراگندگی سے فراغ حاصل کرکے جُز سے کُل کی روشنی میں سما جائے " اب اس کو مزید واضح کیا تو بات پھیل کر تصوف اور سنیاسیت پر مقفل ہوگی لیکن اس مختصر سے مضمون میں مزید وضاحت ممکن نہیں ۔
اُردو ادب جو کہ ابتداء ہی سے پر اسرار یاوہ گوئی کا شکار ہو گیا تھا انگریزی ادب کے مقابلے میں نہایت مضحکہ خیز واقعہ ہوا ہے فینٹسی یعنی تخیلاتی لطف تو انگریزی ادب میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے مگر مغربی ادب میں فینٹسی بھی ایک مخصوص منطقی بنیاد پر چلتی ہے جبکہ ہمارے ہاں ایسا کوئی اہتمام موجود نہیں لیکن بیسویں صدی کی ابتدا میں جب انسانی شعور نے ہند میں ہندوستانی انگریز دانشوروں کی وساطت سے انگڑائی لی تو ہمارے اُردو ادب کے پروانے بھی جھوم اُٹھے میں سمجھتا ہوں کہ اُردو ادب کو برصغیر میں روشن راستے پر لانے والے برصغیر کے پہلے پی ایچ ڈی سکالر ڈاکٹر محمد دین تاثیر ہیں آپ بیک وقت ایک مضبوط شاعر اور فقید المثال نقاد تھے اُردو ادب کو جدت اور منطق کی روشنی دینے والوں میں آپ کا نام ہمیشہ ایک روشن ستارہ کی مانند فلکِ ادب پر ضوفشاں رہے گا فی الحقیقت اُردو ادب میں ترقی پسند تحریک ہندوستان میں کمیونسٹ موومنٹ سے وقوع پذیر ہوئی وہ اذہان جو بنیادی طور پر کمیونزم اور سوشلزم کے فکری حصار میں مبتلا تھے وہ اپنا فکری پیٹرن اُردو ادب میں بھی لے آئے پس اسی طرح اْردو ادب ایک مسلّمہ خیالی دنیا سے ٹھوس منطقی ڈگر پر روانہ ہوا چنانچہ ترقی پسند تحریک سے سوشلسٹ موومنٹ کو کسی بھی صورت الگ نہیں کیا جا سکتا کمیونزم میں غریب پروری اور انسانی مساوات کا وہ آفاقی سلیبس موجود ہے جس کی بنیاد پر دنیا ستر سالہ ناقابلِ فراموش دور دیکھ چکی ہے اور جس کی مثال تاریخ میں اس سے پہلے موجود نہیں چنانچہ کمیونزم کی فکری اساس کی بدولت ہی اُردو ادب گل و بلبل کے فرضی قصوں سے نکل کر سماجی ناہمواریوں کے خلاف ایک منظم اور غیر مقصر آواز پر منتج ہوا چنانچہ اب نہ تو ایاغ و صہبا پر توجہ رہی اور نہ ہی محبوب کی مست نرگسی آنکھوں کی چمک پر ٹکٹکی باندھنے کا دور رہا بیسویں صدی کی ابتدا درحقیقت اُردو ادب کی ایک اساسی انگڑائی کا دور تھا یہ وہ زمانہ تھا جب سوشلسٹ موومنٹ پوری طرح ہندوستان میں عروج پر تھی بایاں بازو کے زرخیز اذہان ایک ایک کرکے اُردو ادب کی ترقی پسند تحریک کے ساتھ ملتے گئے سید سجاد ظہیر جو بنیادی طور پر ایک نظریاتی کمیونسٹ تھے اور جن کی سوشلسٹ خدمات اپنا ایک الگ تعارف اور مقام رکھتی ہیں درحقیقت اْردو ادب کو ایک مضبوط معاشرتی بنیاد فراہم کرتے ہیں اب اْردو ادب کسی محفل میں پڑھے گئے مشاعرے یا کسی سلطان کے دربار میں لگائے گئے ادبی شغل کی بجائے ایک بامقصد جدوجہد کا روپ دھار لیتا ہے ہندوستان میں یہ تحریک صرف اْردو ادب کے لکھاریوں کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب پر مہارت رکھنے والے ہندوستانی ادیبوں کے لئے بھی ایک نظریاتی پلیٹ فارم کی حیثیت رکھتی تھی چنانچہ انگریزی کے معروف ناول نگار احمد علی اور ملک راج آنند بھی انجمن ترقی پسند مصنفین کے نظریاتی بانیوں میں شمار ہوتے ہیں پس وہ اذہان جو بنیادی طور پر سوشلسٹ موومنٹ سے متاثر تھے اْردو ادب میں ایک نئی روشنی لیکر آئے یہ دور بالکل ابتدائی دور تھا اور یقیناً اس دور میں مشکلات بھی کافی تھیں لیکن ایک قدیم اصول ہے کہ انسان کا ارادہ پختہ ہو تو حالات موافق ہو ہی جاتے ہیں یہ تو تھا ہندوستان کا حال، پاکستان بنا تو بہت سے نامور ادیب اور صحافی جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے پاکستان ہجرت کر آئے جن میں سعادت حسن منٹو، حبیب جالب، جوش ملیح آبادی، سبط حسن اور حمید اختر جنہوں نے پاکستان میں ترقی پسند ادب کی آبیاری میں کلیدی کردار ادا کیا اس کے علاوہ کچھ ادیب جو اتفاق سے پاکستان ہی میں موجود تھے احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، احمد فراز نے بھی ترقی پسند تحریک میں اپنے تئیں حصہ ڈالا بالخصوص فیض کا ادبی کام تو انتہائی مضبوط اور قابلِ ستائش ہے پاکستان میں فیض احمد فیض آج بھی ترقی پسند تحریک کا ایک مضبوط حوالہ سمجھے جاتے ہیں عربی، فارسی، انگریزی اور بالخصوص رشین ادب پر کمال گرفت رکھنے والے فقیر طبع فیض نے اْردو ادب کے وسیلہ سے ملک میں وطن پرستی کے علاوہ آمریت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا رواج پیدا کیا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود بھی اپنے مقصد سے نہ ہٹ سکے ہندوستان میں اگر بیسویں صدی نے اْردو ادب و فکر کو کچھ دیا تو وہ ڈاکٹر محمد اقبال اور فیض احمد فیض کی صورت میں دیا اْردو ادب پر فیض کے احسانات اس قدر ہیں کہ ترقی پسند تحریک کا محض نام یاد رکھنے والے بھی فیض کو نہیں بھول سکتے فیض کے بعد آج تک کوئی ایسا مضبوط کمیونسٹ ادیب پیدا نہ ہو سکا جو اْردو ادب پر فیض کا اثر پھیکا کر دے بلکہ ایسا شاید ہی کوئی پیدا ہو مجھے یہ بات کہنے میں ذرا سا بھی تامل نہیں کہ فیض اْردو ادب میں ترقی پسند تحریک کے خاتم الشعراء ہیں۔ *