عام انتخابات 2017 ء میں ہونگے ؟؟؟

عام انتخابات 2017 ء میں ہونگے ؟؟؟
 عام انتخابات 2017 ء میں ہونگے ؟؟؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان پیپلز پارٹی بلاشبہ ایک سیاسی حقیقت تھی اور آج بھی ہے ماضی میں اسی پیپلز پارٹی اور اس کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو چاروں صوبوں کو زنجیر کہا جاتا تھا پھر محترمہ کی شہادت کے بعد ان کے خاوند اور زیڈ اے بھٹو کے داماد آصف علی زرداری نے چاروں صوبوں کی زنجیر اور وفاق کی علامت پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کر دیا۔ مزاحمتی مزاج رکھنے والی پیپلز پارٹی کے ورکروں کو راتوں رات مفاہمت کی لوری سناکر رام کرنے کی کوشش کی گئی بہت سے نظریاتی کارکن مفاہمت کے فلسفے سے اختلاف کرتے ہوئے ناراض ہو کر گھر بیٹھ گئے یا پھر تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں میں چلے گئے اور بہت سے ایسے بھی تھے جو مفاہمت کے اس سفر میں آصف علی زرداری کے ہمسفر بن گئے اور انہوں نے بذریعہ مفاہمتی سیاست اتنا مال کمایا کہ اپنی آنے والی کئی نسلیں سنوار لیں آج اس پیپلز پارٹی کو مفاہمت سے مزاحمت میں تبدیل کرنے کیلئے ایک بار پھر محترمہ بینظیر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو زداری میدان عمل میں آیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو جہاں پر اپنے والد کا کفارہ ادا کرنا پڑ رہا ہے اور ورکروں کی طرح طرح کی باتیں سننی پڑ رہی ہیں وہاں پر اپنی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے خون کی بھی لاج رکھنی ہے ‘ بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی سفر پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو اس میں کئی قسم کے مسائل اور نقائص نظر آتے ہیں ۔ ایک طرف بلاول بھٹو زرداری ‘ وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں نعرے لگاتے ہیں مودی کے یار کو کرپشن کے سردار کو ایک دھمکا اور دو ‘ کبھی الطاف حسین کی نقلیں اتارتے ہوئے انکو وارننگ دیتے ہیں پھر اگلے ہی روز دونوں حضرات کو اپنا انکل قرار دیکر تمام سیاسی کیس ہی خراب کر لیتے ہیں ‘ اس طرح عمران خان کے ساتھ پہلے چلنے کی بات کرتے ہیں پھر عمران خان کو چاچا کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں اگر دیکھا جائے تو لگ بھگ بلاول بھٹو زرداری نے تمام سینئر سیاستدانوں کا مذاق بھی اڑایا ہے انکو چیلنج بھی کیا ہے۔ بیانات میں تبدیلی اور یوٹرن کے بعد پیپلز پارٹی کے نظریاتی جیالے اور میڈیا کی رائے یہ بنتی جا رہی ہے کہ بلاول بھٹو اپنے تنظیمی فیصلوں میں آزاد نہیں ہیں ‘ آصف علی زرداری کے لکھے سکرپٹ پر عمل کیا جا رہا ہے اور رہی سہی کسر بلاول کا تقریر نویس نکال دیتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری جو کہ ایک طرف پیپلز پارٹی کو دوبارہ سے عوام کے دلوں اور جیالوں کے ذہنوں میں زندہ کرنے کیلئے تگ و دو کر رہے ہیں اس کیلئے ان کو عام آدمی کو اور جیالوں کو یقین دلانا ہو گا کہ وہ اپنے فیصلوں میں خود مختار اور آزاد ہیں۔ جس طرح بلاول بھٹو زرداری نے اپنی نظریاتی ٹیم اور پیپلز پارٹی کے انکل ونگ دونوں کو الگ الگ کر دیا ہے اسی طرح ان کو اپنے والد محترم کی ڈائریکشن کے مطابق چلنے کے تاثر کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ زائل کرنا ہو گا اب تو بلاول بھٹو زرداری کے بارے فیصلہ ہو گیا ہے کہ وہ اپنی والدہ کی سیٹ سے ایم این اے بن کر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا آئینی عہدہ سنبھالیں گے اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں 2017 ء میں ہونگے اور وہ وزیر اعظم بنیں گے اور بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوتی بلاول بھٹو نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ 2018 ء میں پتہ نہیں کہ نواز شریف جیل میں ہونگے ‘ جدہ یا پھر کسی اور جگہ ہونگے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بلاول ہاؤس لاہور میں جاری 7 روزہ یوم تاسیس کی تقریبات کے آخری روز اعلان کیا کہ وہ عملی سیاسی اتحاد بنائیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کس طرح سے 2017 ء میں عام انتخابات دیکھ رہے ہیں یا پھر ان کو یہ کس نے بتایا ہے کہ 2018 ء میں نواز شریف جیل میں یا پھر جدہ میں ہونگے۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئر مین کے منہ سے ایسی باتیں بہت سے سیاسی پنڈتوں کو ہضم نہیں ہو رہی ہیں مگر بلاول بھٹو زرداری جس اعتماد کے ساتھ یہ گفتگو کر رہے ہیں وہ اگر مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہیں تو انکی تمام باتیں غلط بھی نہیں ہیں جہاں 27 دسمبر تک بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو 4 مطالبات پر ڈیڈ لائن دی ہے اور مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں لانگ مارچ کرنے کی دھمکی دی ہے اس کو ن لیگ اور سیاسی حلقے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے لیکن نئی پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو زرداری اگر پارٹی سے مفاہمت کا لیبل اتارنا چاہتے ہیں تو ان کو کچھ نہ کچھ بہرحال کرنا پڑے گا لیکن اس کا فیصلہ بھی آنے والا وقت ہی کریگا کہ بلاول بھٹو زرداری کے اس لانگ مارچ میں کون کون سی سیاسی جماعتیں ساتھ دیتی ہیں اور اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف پیپلز پارٹی کس طرح دو تہائی اکثریت کی حامل ن لیگی حکومت اور تجربہ کار وزیر اعظم کو اقتدار کی کرسی سے جیل تک یا جدہ تک پہنچا سکے گی۔وزیراعظم کو گھر پہنچانے کا واحد طریقہ جو نظرآ رہا ہے وہ سپریم کورٹ میں جاری پانامہ لیکس کا کیس ہے لیکن تازہ ترین صورتحال کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس کیس میں بھی زیادہ سے زیادہ وزیراعظم گھر جا سکتے ہیں یا نا اہل ہو سکتے ہیں لیکن ان کی حکومت اور پارٹی تو پھر بھی میدان میں موجود رہے گی اور اس حوالے سے بھی حکومت نے نئے چیف جسٹس کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کر کے پیغام دے دیا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس زیادہ سے زیادہ کس حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ سوال تو اپنی جگہ موجود ہے کہ کون سی طاقت آئیگی جو موجودہ پاپولر جماعتوں ن لیگ اور پی ٹی آئی کو راستے سے ہٹا کر بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دے گی۔ بلاول بھٹو زرداری سے سوال تو یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی میں تبدیلی لائے بغیر کس طرح ناراض کارکنوں کو گھروں سے نکالیں گے اور سب سے اہم سوال کہ چارٹرڈ آف ڈیمو کریسی (COD) کی موجودگی میں آپ انکل نواز شریف کیخلاف کس حد تک جا سکتے ہیں اس کا فیصلہ نہ آپ نے کرنا ہے اور نہ ہی شائد آپ کے والد محترم کو کرنے کا حق ہے اس کا فیصلہ تو چارٹرڈ آف ڈیمو کریسی کے گارنٹر امریکہ کو کرنا ہے جس کی گارنٹی کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ آج تک درجنوں اختلافات کے باوجود اس معاہدے پر قائم ہیں اس معاہدے کی رو سے 2018 ء میں آئندہ کون وزیر اعظم ہو گا اور کیوں ہو گا اس کے بارے آئندہ کسی روز لکھوں گا اور قارئین کو یہ بھی بتاؤں گا کہ آنے والے انتخابات کے نتیجہ میں کون سی جماعت اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔

مزید :

کالم -