چترال سے جانے والی پی آئی اے کی پروازاسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی حادثے کا شکار ہو گئی
ہمارا کامل ایمان اور پختہ یقین ہے کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے جس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا ۔لیکن جب کوئی شخص غفلت ، چشم پوشی، کوتاہی یا دانستہ و مجرمانہ عدم توجہی کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں جاتا ہے تو اس قسم کے حادثاتی موت نا صرف نہایت قابل افسوس ہوتی ہے بلکہ ذمہ داری کے تعین کے لئے قابل گرفت بھی کسی ایک فرد یا ادارہ کی غلطی اور نا اہلی کی وجہ سے دوسرے کے جان چلی جائے تو قانون کی نظر میں ذمہ دار فرد یا ادارہ جرم کا مرتکب گردانا جاتا ہے ۔ قتل عمد اور قتل خطا میں فرق صرف اتنا ہی ہے کہ جان بوجھ کر کسی کی جان لینا بھی جرم ہے تو محض کوتاہی یا غفلت کی بنا پر انجانے میں کسی کو مار دینا بھی خلاف قانون ۔ضابطہ فوجداری کی 4دفعات ایسی ہیں جو حادثاتی اموات کے ذمہ داروں کو قانون کے شکنجے میں لاتی ہیں اور ان کا ایسا عمل بھی خلاف قانون سمجھا جاتا ہے ۔جس کے لئے قانون میں مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں ۔
اسے بدقسمتی کا نام دیجیے یا قانونی سقم کہیے کہ ہمارے ہاں حادثاتی اموات کی بہتات کچھ زیادہ ہی ہے اور اس پر ظلم یہ کہ جانیں ضائع کرنے کے ذمہ دار سزا سے صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آئے روز ہونے والے حادثات روکے جانے تو کجا ان میں کمی بھی نہیں لائی جا سکتی سڑکوں پر ہونے والے ٹریفک حادثات کی فہرست تو بڑی طویل ہے ٹرین ایکسیڈنٹس اور فضائی حادثے بھی کم نہیں ہوتے ۔ ابھی گزشتہ روز یعنی 7دسمبر 2014ء کو چترال سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی بدقسمت پرواز PK-661حولیاں کے نزدیک پہاڑی علاقے میں گر کر جس حادثے کا شکار ہوئی وہ انتہائی قابل افسوس واقع ہے جس میں عملے سمیت کم و بیش 47مسافر سوار تھے ۔مزید دکھ بھرا پہلو یہ اس حادثے میں پاکستان کے مایہ ناز کرکٹر ، مبلغ اور نعت خواں جنت جمشید نے بھی اپنی اہلیہ نیہا جمشید سمیت جام شہادت نوش کیا اور دین کی تبلیغ کے سلسلے میں چترال گئے تھے کہ واپسی پر حادثے کا شکار ہو گئے ۔ڈی سی او چترال اُن کی اہلیہ اور بیٹی سمیت دیگر کئی اہم شخصیات بھی اس سانحہ میں جاں بحق ہوئیں ابتدائی طور پر ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایبٹ آباد طیارہ کے حادثے میں 44 پاکستانیوں سمیت تین غیر ملکی باشندے بھی شامل ہیں۔ چین سے تعلق رکھنے والے ہیرلڈ کیسلر اور ایچل ہینگر بھی ہلاک ہوئے۔ جنید جمشید 27 سی اور ان کی اہلیہ ان کے ساتھ 27 اے سیٹ پر بیٹھیں ہوئی تھیں۔ لاشیں ملبہ سے نکالنے کیلئے مقامی لوگوں نے بہت تعاون کیا اور لوگ چادریں لے کر جائے حادثہ پر پہنچے تاکہ لاشوں کو ڈھانپا جاسکے۔ اس بدقسمت طیارے کے حادثے میں 2 بچے بھی جاں بحق ہوگئے۔ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ اسلام آباد سے صرف 20 منٹ کی مسافت پر تھا۔ بدقسمت طیارے کے بائیں انجن میں خرابی تھی اور طیارہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہوا۔حویلیاں کے ایک سرکاری عہدے دار تاج محمد خان نے بتایا کہ عینی شاہدین نے انہیں بتایا کہ طیارہ پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہوا اور گرنے سے قبل ہی طیارے میں آگ لگی ہوئی تھی تاہم طیارہ گرنے کی کوئی حتمی وجہ سامنے نہیں آسکی اور نہ ہی پی آئی اے کی جانب سے کوئی تصدیق کی گئی ہے اور اس حوالے سے تحقیقات شروع کر دی گئیں طیارہ کا بلیک باکس ملنے کے بعد معلوم ہوسکے گا کہ پائلٹ نے طیارہ تباہ ہونے سے قبل کنٹرول ٹاور سے کوئی رابطہ یا پیغام دیا تھا یا نہیں۔پی آئی اے کے ترجمان دانیال گیلانی نے بتایا کہ کنٹرول ٹاور کو خطرے کا سگنل بھیجا گیا تھا جس کے فوری بعد طیارے کے تباہ ہونے کی اطلاع آگئی۔انہوں نے بتایا کہ تباہ ہونے والا طیارہ اے ٹی آر 42 ایئرکرافٹ تھا اور تقریباً 10 برس پرانا اور اچھی حالت میں تھا۔
معلوم ہوا ہے کہ ممتازنعت خواں جنید جمشید کی بدقسمت طیارے میں سوار ہونے سے قبل آخری مصروفیت نماز کی ادائیگی تھی جس کی تصویر انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شیئر بھی کی تھی ۔شہید نعت خواں جنید جمشید نے اپنے کیریئر کا آغاز وائٹل سائنز نامی پاپ بینڈ میں مرکزی گلوکار ہونے کی حیثیت سے کیا۔ اس بینڈ کے ذریعے انہیں اپنی زندگی میں بیشمار شہرت ملی۔گلوکاری میں بے انتہا شہرت حاصل کرنے کے بعد ان کا رجحان اسلامی تعلیمات کی طرف بڑھ گیا جس کے بعد وہ تبلیغی جماعت سے وابستہ رہے اور آہستہ آہستہ انھوں نے موسیقی کو خیر باد کہہ دیا۔ان کا شمار پاکستان کے نامور نعت خوانوں میں ہونے لگا جنید جمشید کو 2007 میں صدر پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
اس حادثے پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے کہ اس میں کئی جانیں ضائع ہوئیں ۔حادثے کا اصل سبب کیا ہے اور اتنی قیمتی جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے یہ تو تحقیقات کے بعد سامنے آئے گا لیکن فوری طور پر جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سانحہ بھی ماضی میں ہونے والے فضائی حادثات سے زیادہ مختلف نہیں ہیں جو وجوہات بتائی جا رہی ہیں وہ بھی نئی نہیں۔گزشتہ فضائی سانحات کے پس منظر پر غور کیا جائے اور تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں غفلت ضرور موجود ہے جو ہم دور نہیں کر پائے اور ماضی کے حادثات سے سبق سیکھنے کی بجائے وہ کمیاں کوتاہیاں دور نہیں کی جا سکیں جو حادثات کا سبب بنتی ہیں ۔
کہا یہ جاتا ہے کہ پی آئی اے کے فِلیٹ میں کئی جہاز ایسے ہیں جو تکنیکی طور پر پرواز کے لئے موزوں نہیں ہیں اور انہیں ہوا بازی کے بین الاقوامی معیار کے مطابق اڑنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے لیکن شاید ہمارے ارباب بست و کشاد اس طرف بوجوہ توجہ نہیں دے پا رہے ۔نجی کمپنیوں کے جہازوں کے بارے میں تو اکثر شکایات ملتی تھیں کہ وہ ناکارہ یا نا قابل استعمال ہیں لیکن پی آئی اے جسے قومی ائیر لائن ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس کے جہازوں کی حالت اچھی نہیں تو یہ بڑا افسوس ناک پہلو ہے ۔ اس امر کی باریک بینی سے تحقیقات ہونی چاہئیں کہ یہ طیارہ فضائی حادثہ کا شکار کیوں ہوا جن ایجنسیوں کو جہاز کی اڑان سے پہلے اچھی طرح چیک کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ان کی رپورٹ کیا تھی اور کیا وہ درست بھی تھی کہ نہیں موسم کی خرابی کا بہانہ تو کیا ہی نہیں جا سکتا کہ محکمہ موسمیات دو روز قبل ہی گزشتہ روز کے موسم کی خوشگواری کی پیشن گوئی کر چکا تھا ایندھن کم ہونے کا معاملہ بھی زیر غور آنا چاہئے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جس علاقے میں طیارہ گر کر تباہ ہوا وہ خیبرپختوانخوا کے ضلع ایبٹ آباد کی حدود ہے جہاں امن و امان کی صورت حال زیادہ بہتر نہیں رہی، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس طیارے کو زمین سے ٹارگٹ کیا گیا ہو۔ تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے نا صرف باریک بینی سے تفتیش کی جائے بلکہ اس بڑے سانحہ کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور ایسے اقدامات کئے جائیں کہ آئند ہ اس قسم کے حادثے کے اعادے سے بچا جا سکے ویسے تو پی آئی اے نے حویلیاں طیارہ حادثے کی تحقیقات کے لئے ایئر کموڈور منیر بٹ کی سربراہی میں انویسٹی گیشن بورڈ تشکیل دے دیا، ڈی جی سول ایوی ایشن کی ہدایات پر پی آئی اے نے طیارہ حادثے کی تحقیقات کے لیے بورڈ تشکیل دے دیا ہے، ایئر کوڈور منیر بٹ بورڈ کے سربراہ ہوں گے۔قوم امید کرتی ہے کہ یہ تحقیقاتی ٹیم مکمل دیانتداری اور فرش شناسی کے ساتھ اپنی تفتیش جلد مکمل کرے گی۔