بھارت میں نوٹ بندی کے ایک ماہ بعد بھی کرنسی کا بحران حل نہ ہو سکا

بھارت میں نوٹ بندی کے ایک ماہ بعد بھی کرنسی کا بحران حل نہ ہو سکا
بھارت میں نوٹ بندی کے ایک ماہ بعد بھی کرنسی کا بحران حل نہ ہو سکا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری:

بھارت میں نوٹ بندی کو پورا ایک مہینہ ہوگیا ہے اور کرنسی کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ بھارتی عوام کا تو جو حشر ہو رہا ہے سو ہو رہا ہے، روس نے بھارت کے ساتھ اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ نئی دہلی میں ان کے سفیر کے پاس عملے کو تنخواہیں دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں، روس کا مطالبہ یہ ہے کہ سفارت کاروں کو کرنسی نوٹوں کی منسوخی سے استثنا حاصل ہونا چاہئے۔ کئی اور ملکوں کے سفارت خانے بھی اپنے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دے سکے اور دوسری جانب بی جے پی کے لوگ نہ صرف بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں بلکہ ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ بی جے پی کے ایک رہنما نے بندش کے اس عرصے میں بچوں کی شادی پر پانچ کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ آج بھی بی جے پی سے تعلق رکھنے والے لوگ 40 فیصد کٹوتی پر نوٹ تبدیل کر رہے ہیں یعنی 500 کے نوٹ کے بدلے 300 روپے دے رہے ہیں۔ اس طرح ان کے پاس جو نوٹ جمع ہوتے ہیں وہ بینکوں سے اندر خانے یہ کہہ کر تبدیل کرائے جاتے ہیں کہ یہ پارٹی فنڈ میں ملنے والے عطیات ہیں۔
حکمران پارٹی کے لوگ خوش ہیں تو وزیراعظم مودی یہ خوش خبری سنا رہے ہیں کہ ان کی یہ سکیم بڑی کامیاب رہی، اب اگلے مرحلے پر وہ بے نامی زمینوں اور سونے کا حساب کتاب کریں گے۔ اس اطلاع کے ساتھ مارکیٹ میں سونے کی قیمتیں گرگئی ہیں اور خریداری میں معتدبہ کمی آگئی ہے۔
نوٹوں کی بندش کے ایک ماہ بعد صورت حال یہ ہے کہ بینکوں کے باہر لگنے والی لائنوں میں ہونے والی دھکم پیل کی وجہ سے اب تک 84 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ لوگ آدھی رات کے بعد گرم کپڑے اور رضائیاں لے کر بینکوں کے باہر لائنوں میں بیٹھ جاتے ہیں تاکہ بنک کھلیں تو ان کی باری آجائے، لیکن بینکوں میں آنے والا کیش ضرورت کے مقابلے میں اتنا تھوڑا ہوتا ہے کہ چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مودی نے کرنسی نوٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کرتے وقت لوگوں کے جذبات کو پاکستان کے خلاف مشتعل کیا تھا، انہیں گمراہ کیا گیا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کی مالی مدد کر رہا ہے، اس لئے کشمیر کے حالات درست نہیں ہو رہے۔ پاکستان پر جعلی بھارتی کرنسی پھیلانے کا الزام بھی لگایا گیا، اب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر ایسا تھا تو مقبوضہ کشمیر میں مظاہروں اور جلسے جلوسوں میں اب تک کمی کیوں نہیں آرہی۔ دو ہزار روپے کا جو نیا نوٹ متعارف کرایا گیا ہے اس کا جعلی نوٹ بھی فوٹو کاپیوں کی صورت میں منظر عام پر آچکا ہے۔ دس بڑے بینکوں کی پچاس برانچوں میں اس بات کی تحقیقات شروع ہوگئی ہے کہ جن لوگوں نے کروڑوں روپے کے نوٹ جمع کروائے ہیں ان کے پاس اتنی بڑی رقوم کہاں سے آئیں۔ یہ لوگ اب اپنی رقوم ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ ان پیسوں کا حساب دینے کی آزمائش سے بھی دو چار ہوگئے ہیں۔ اس پورے ایک مہینے میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ نوٹ منسوخ کرنے سے پہلے نہ تو کسی قسم کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور نہ ہی یہ پیش بندی کی گئی کہ اتنی بھاری رقوم کے نوٹ منسوخ ہونے کے بعد کرنسی مارکیٹ اور عام کاروبار پر کیا اثر پڑے گا۔ چھوٹے نوٹ (ایک سو روپیہ اور اس سے کم) زیر گردش کرنسی کا صرف 13 یا 14 فیصد تھے، اس لئے بحران تو نظر آرہا تھا لیکن مودی خوش تھے کہ انہوں نے کوئی ایسا انقلابی اقدام کر دیا ہے جو ان کی ہر دلعزیزی میں اضافہ کر دے گا، حالانکہ اب بی جے پی کو ان ریاستوں میں شکست بھی سامنے نظر آرہی ہے۔ جہاں چند ماہ بعد ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ قوم منصوبہ بندی کے بغیر اور افراتفری کے جس عالم میں اٹھایا گیا اس کا اندازہ اس امر سے ہو جاتا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد اب تک ایک مہینے کے اندر 122 احکامات ایسے جاری ہوچکے ہیں، جن کا تعلق کسی نہ کسی انداز میں نوٹوں کی بندش سے ہوتا ہے۔ ان احکامات میں مضحکہ خیزی بھی صاف پڑھی جاسکتی ہے۔ مثلاً ایک دن یہ حکم آتا ہے کہ بینک سے بیک وقت چار ہزار روپے تبدیل کرائے جاسکتے ہیں۔ اگلے روز یہ رقم بڑھا کر ساڑھے چار ہزار کر دی جاتی ہے اور تیسرے روز کم کرکے دو ہزار روپے پر لے آئی جاتی ہے۔ لوگ اب تک ان احکامات کی منطق سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں روزانہ ہنگامہ آرائی ہوتی ہے اور شور شرابے کے بعد اجلاس ملتوی ہو جاتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مودی نوٹ منسوخ کرنے کی حکمت پارلیمنٹ میں آکر بیان کریں لیکن انہوں نے ایوان کا رخ نہیں کیا۔ نوٹوں کی وجہ سے شادیاں منسوخ ہو رہی ہیں، اگرچہ یہ حکم جاری کیا گیا ہے کہ شادی کا چھپا ہوا دعوت نامہ دکھا کر بینک سے ڈھائی لاکھ روپیہ بیک وقت تبدیل کرایا جاسکتا ہے، لیکن بینکوں کے پاس ڈھائی لاکھ ہوگا تو دیں گے، اس لئے یہ بحران روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

مزید :

تجزیہ -