کچھ پانا ہے تو دکھ جھیلو

کچھ پانا ہے تو دکھ جھیلو
کچھ پانا ہے تو دکھ جھیلو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اظہر فاروق
دکھ بہت بڑا محرک اور استاد ہوتا ہے۔ہمارے نوجوان اکثر چھوٹی چھوٹی مشکلات سے گھبرا کا ہاتھ پاؤں ڈھیلے کردیتے اور مقدر کو کوستے ہیں حالانکہ یہ دکھ اور غربت جوہر قابل کاراستہ نہیں روکتے البتہ اسکو ابتلا میں کچھ سکھاتے ہیں اور ایسا ہر انسان کے ساتھ پیش آتا ہے۔دکھ اور پریشانی سے لڑنے کاسلیقہ اور گر جاننا ہو تو کامیاب اور بڑے لوگوں کی زندگیوں میں جھانکنا چاہئے۔مثلاً علامہ اقبال،قائد اعظم، گاندھی ، شیکسپیئر، بائرن، گوگول، غالب اور بہت سے دیگر عظیم لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھیں تو اس استاد زماں کی حکمت کا علم ہوتا ہے۔ ان شخصیات کی زندگی میں دکھوں کی ایک طویل داستان ملتی ہے،جو کبھی مالی اور کبھی دیگر حالات کی وجہ سے پیش آتے رہے ہیں۔ مگر انہوں نے ان مصائب اور مشکلات کو اپنے مقاصد پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ اور اپنا سفر ہر حالت میں جاری رکھا ۔بالاآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ دنیا سے چلے جانے کے باوجود پوری آب و تاب سے دنیا کے ا فْق پر چمک رہے اور دنیا کو اپنی حکمت سے فیض یاب کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر علامہ اقبال کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ گورنمنٹ کالج سے فلسفہ کی تعلیم حاصل کررہے تھے تو مالی زیادتی کی وجہ سے اپنے دوستوں کے ہمراہ باہر جا کر مختلف کاموں میں پیسے خرچ کرنے پراعتراض کیا کرتے تھے۔ اور اگر کوئی رفیق ان کے پیسوں میں سے اْدھار لیتا تو اس کا پورا حساب لیتے تاکہ اپنے بھائی کے اوپر اضافی خرچے کا بوجھ نہ ڈالیں جو ان کے تعلیمی خرچے کا بوجھ اٹھا رہا تھا۔
گاندھی صاحب نے جب ابتدائی تعلیم مکمل کرلی تو انہوں نے انگلستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن گاوْں کے مکھیا نے ان کے انگلستان جانے پر پابندی عائد کردی۔ کیونکہ اس زمانے میں مکھیا ہی گاوْں کا کرتا دھرتا ہوا کرتا تھا اس لئے اس کے انکار کے بعدان کے اہلِ خانہ کے لئے ان کو انگلستان بھیجنا تقریباًنا ممکن ہوگیا تھا۔ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍمگر گاندھی نے ہار نہ مانی اور اپنے بھائی کے دوست کی مدد سے انگلستان جا کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
شیکسپیئر ایک غریب خاندان کا سپوت تھا۔ اس کے والد تو اس کی وفات کے چند سال بعد وفات پاگئے تاہم ان کی پرورش کی ذ مہ د اری ان کی والدہ پر آگئی ۔ بچپن کی مالی مشکلات اور بھوک افلاس نے شیکسپیئر کو کچھ کر دکھانے پر آمادہ کیا۔ وہ چھوٹی عمر میں ہی لندن بھاگ گئے ، ویٹر بنے، گھوڑوں کی دیکھ بھال کا فریضہ انجام دیا۔ ڈرامہ پریزنٹیشن میں معاون کے طور پر کام کیا مگر مقصد کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ آہستہ آہستہ ڈرامہ نگار بن گئے اور پھر ایسے ایسے شاہکار تخلیق کیے کہ دنیا نے ان کے نام کا لوہا مان لیا۔ آج چار صدیاں بیت جانے کے باوجود شیکسپیئر مشرق اور مغرب کے نامہ نگار شاعر اور ڈرامہ نویس ہیں۔
بائرن کے حالات بھی شیکسپیئر کے حالات سے کافی حد تک مماثلت رکھتے تھے۔ لیکن اس نے اپنے مالی حالات سے نپٹنے کے لئے موسیقی کے فن سے استفادہ حاصل کیا، جو انہوں نے بچپن میں اپنی والدہ سے سیکھا تھا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اصل مقصد کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور پھر اپنے تمام تر مسائل کو بالائے طاق رکھ کرلکھنے کو اپنا مشغلہ بنالیا۔ وہ وقت بھی آگیا جب انہوں نے دنیا کو شاعر ی کے ایسے ایسے نایاب اثاثے دیے جو تقریبًا دنیا کی تمام لائیبریریوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
روس کے عظیم ناول نگار دوستوفسکی نے زندگی بھر قرض لے لے کر اپنا گزر بسر کیا ۔۔ ٹالسٹائی ان کے ہم عصر تھے اور اور مالی لحاظ سے کافی مضبوط تھے۔کیونکہ ان کو وراثت میں جاگیر مل گئی تھی۔ اس لئے دوستو فسکی نے تمام عمر ٹالسٹائی کے آگے دست سوال دراز کئے رکھا۔ ان دونوں ہیروز میں اگرچہ کچھ اختلافات بھی تھے لیکن جب دوستو فسکی مر گیا تو ٹالسٹائی نے رو رو کر کہا کے آج میرا دوست مر گیا ہے اور جب سٹیشن ماسٹر کے گھر ٹالسٹا ئی نے دم توڑا تو اُن کے سرہانے دوستو فسکی کا ناول پڑا ہواتھا۔
والٹیئر فرانس کے بڑے لکھاریوں میں سے ایک ہے لیکن اس کی زندگی بھی باقی لوگوں کی طرح دکھوں سے بھرپور تھی۔ اس نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کہانیاں لکھنی شروع کی پھر آہستہ آہستہ ڈرامہ نگاری سے فلسفے کی طرف متوجہ ہواکہ کہیں حالات سازگار ہوجائیں مگر ساری عمربے سروسامانی میں گزری۔
غالب کے والد کی وفات کے بعد کفالت کی ذمہ داری چچا پر آئی جس نے اپنی استطاعت کے مطابق تعلیم دلوائی پھرچل بسے۔ غالب نے اگرچہ مندرجہ بالاشخصیات کی طرح ہی مالی مسائل برداشت کئے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ یہ حالات غالب کے اپنے ہی پیدا کردہ تھے۔
زندگی میں بلندمقام اور اپنی پہچان بنانے والوں کو ایسے اولعزم افراد کی بائیوگرافی پڑھنی چاہئے تاکہ ان کے اندر دکھ اور افلاس سے لڑنے اور کام کرنے کا حوصلہ پیدا ہوجائے.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -