پبلک کو ماموں بنانے تک
نوید تاج غوری
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، جتنا یہ محاورہ ہمارے الیکٹرونک میڈیا پر صادرآتا ہے شاید کسی اور پرنہیں۔ صحافت کے گئے وہ دن کہ جب ساتھ اعلٰی اخلاقی معیار، نظریات اور حق سچ پر ڈٹ جانا اس کی علامت تھا۔ اب تو فقط رہ گئی رسم آذان روح بلالی نہ رہی۔ گزشتہ دس سالوں کا مواخذہ کریں، کافی مثالیں مل جائیں گی۔ بڑے بڑے ٹی وی چینلز کی بندش کے معاملات۔ لیکن یہ پابندی اور وہ بھی چھوٹے چینلز کے لئے، اوپر سے ایک طے شدہ مدت کی، کسی اخوان نعمت سے کم نہیں۔ فارمولا وہی ہے کہ جو کتاب نہ بکے کسی طرح اسے متنازع کر دو، پابندی لگوالو۔ ایسے ہی کسی چینل کے لئے پیمرا ایکشن یوں سمجھیں کہ ان کے لئے خواب گراں مایہ کی تکمیل سے کم نہیں۔ پھر اس پر عوام کا رد عمل بنانے یا ظاہر کرنے کی کوشش کرو۔
چلیں آپ کو بتاتے ہیں کہ آزادی صحافت کا چیمپئن کیسے بنا جاتا ہے؟ ایک مختصر اور تازہ مثال دیتا ہوں کہ کس طرح میڈیا اور کارپوریٹ کلچر آپ کے دل و دماغ اور جذبات سے کھیلتے ہیں!
پس منظر یہ ہے کہ پیمرا نے سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب کے خلاف خبر نشر کرنے پر دن نیوز چینل کا لائسنس 30 روز کے لئے معطل کردیا جبکہ اس پر 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ علاوہ ازیں نیو ٹی وی چینل کا لائسنس بھی سات روز کے لئے معطل کیا گیا جب کہ ادارے پر 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ دن نیوز کی تو کل چار دنوں میں معافی تلافی اور بحالی ہو گئی۔ لیکن نیو ٹی وی کو جیسے پبلسٹی کا موقع مل گیا۔ نیو ٹی وی۔ یہ سپیرئر گروپ آف کالجز، سپیرئر یونیورسٹی اورروزنامہ نئی بات والوں کا لاہور سے نشر ہونے والاچینل ہے جو کہ زیادہ پرانا نہیں اور نسبتاً غیر معروف ہے۔ ادارے نے اسے بھی تشہیر کا ذریعہ بنا لیا۔ بند چینل پربھی تالے والی سلائیڈ لگا کرٹِکر کے ساتھ ایک ہفتہ ڈسپلے رکھا۔ دریں اثنا چینل والوں نے پتا نہیں کیا کیا کہہ کر خوب سات دن میں رولا لپا ڈالا اور بینر وغیرہ آویزاں کئے۔ حکومت کو برا بھلا کہا، کبھی کشمیر کاز کا نام لیا اور کبھی آزادی صحافت کا مشہور کارڈ استعمال ہوا۔ ’’بھرپور‘‘ احتجاج کی تصویریں بنانے کے لئے سٹوڈنٹس اورسول سوسائٹی بمعہ چار پلے کارڈ ۔۔۔ نفری یونیورسٹیز اور کالجز سے مل گئی۔ماشااللہ ویسے کوئی کمی نہیں تھی۔ بظاہر چینل کے ٹاسک پر حکومت کو لتاڑنے والی ٹھنڈی میٹھی کیمپین بھی چلائی گئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ اخبار بمعہ چینل اور اس کے مالکان، سخت حکومت نواز قسم کے لوگ ہیں۔ خیر میڈیا کی زبان میں ہائپ پیدا کرنا مقصود تھا، باقی رہے پریس کلب اور ان کی ہر تیس دن میں آنے والی تین سو ہمدردیاں اور ہمیشہ سے ارزاں دستیاب اظہار یکجہتیاں۔ خیر چینل تو کسی صورت کھلنا نہیں تھا، اور نہ ہی کسی نے کھلوانا تھا سات دن سے پہلے خدانخواستہ، وگرنہ محنت کے ضائع ہونے کا خدشہ تھا۔ چلیں وہ تو کاروبار ہے ۔ظاہر ہے اس پر کروڑوں کی انوسٹمنٹ ہے لیکن ہماری عوام ایسی ہے کہ سات دن کچھ نہ چلنے کے باوجود صرف بند سکرین کو دیکھ دیکھ کر آنکھیں سینکتی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہفتے میں دس لاکھ جرمانہ اور اور لاکھوں کے اشتہارات کا نقصان اٹھا کر، چینل والے اس بند سکرین ریٹنگ کی بنا پر ایڈوانس میں آٹھ دس کروڑ کے اشتہارات بک کر چکے ہیں اور آزادی صحافت کے چیمپئن بننے کی ریہرسل بھی کر چکے ہیں۔ اسے کہتے ہیں رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی۔ چینل کے آج شاید سات دن پورے ہو رہے ہیں تو کل سے دن نیوز کی طرح حق سچ کی آواز، ضمیر کی فتح، طوفانوں میں ڈٹ جانا، فیض و جالب کے فوٹو شاپ شدہ اشعار بھی آزادی صحافت کی طرح پشت ڈال دئے جائیں گے۔ باقی رہ جائیں گے آپ اور آپ کے بھاں بھاں کرتے چینلز۔۔۔ اگلے آزادی صحافت کے چیمپئن کی ’’ظلم کے خلاف آواز‘‘ بلند کرنے سے پبلک کو ماموں بنانے تک۔۔۔!
.
(نوید تاج غوری نے مینجمنٹ ان سائنسز میں ایم فل کیا ہے ۔ادبی و فکری رجحان رکھتے ہیں۔ان کے بلاگز کئی سائٹس پر شائع ہوتے ہیں۔ وہ چبھتے ہوئے سیاسی و سماجی موضوعات پر بے لاگ لکھتے ہیں۔ا ن سے https://www.facebook.com/Naveed.Ghouri/?fref=ts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے)
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔