امریکی صدر ٹرمپ کا انتہائی متنازعہ فیصلہ

امریکی صدر ٹرمپ کا انتہائی متنازعہ فیصلہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔امریکہ پہلا مُلک ہے،جس کا سفارت خانہ بیت المقدس میں قائم ہو گا،اِس وقت 86ممالک کے سفارت خانے تل ابیب میں موجود ہیں۔ امریکی صدر نے اپنے متنازعہ فیصلے کے اعلان میں کہا کہ علاقے میں امن و سلامتی کے لئے کاوشیں جاری رہیں گی،امن کے لئے مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کو متحد ہونا پڑے گا۔صدر ٹرمپ نے کہا اِس سے پہلے بہت سے امریکی صدور نے سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، ہمت کم تھی یا انہوں نے ارادہ بدل دیا، کچھ نہیں کہہ سکتا فیصلے کو کئی اختلافات کا سامنا رہا۔ امریکہ نے ستر سال پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا، اِس دن سے اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت مانتا ہے۔انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ عالمی مسائل کا حقیقت پسندانہ مقابلہ کروں گا اِسی کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی پالیسی کی حمایت کرتا رہے گا۔امریکی سفارت خانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کا عمل چھ ماہ بعد ہو گا۔
اسرائیل کئی عشروں سے کوشش کر رہا تھا کہ جن ممالک کے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں وہ اپنے سفارت خانے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر لیں، لیکن امریکہ سمیت کوئی مُلک یہ اقدام اُٹھانے پر تیار نہیں ہو رہا تھا اِس کا ذکر صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ ’’اُن میں ہمت کی کمی تھی یا انہوں نے ارادہ بدل لیا‘‘ غالباً امریکی صدر نے اپنے آپ کو جرأت مند اور اِس معاملے پر اسرائیلی خوشنودی کا خیال رکھنے والا صدر ثابت کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے،لیکن اُن کے اِس فیصلے کے مشرقِ وسطیٰ کے امن پر بُرے اور منفی اثرات مرتب ہوں گے۔اگرچہ ہر امریکی صدر ہمیشہ سے اسرائیل کے اشارہ ابرو کو سمجھ کر ہی پالیسیاں بناتا ہے، اسرائیل کو سب سے زیادہ امریکی امداد بھی دی جاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ بعض صدور اسرائیل کو معقولیت کا رویہ اختیار کرنے کے مشورے بھی دیتے رہتے ہیں،لیکن خود سری کے گھوڑے پر سوار اسرائیلی حکمران اس کی پرواہ نہیں کرتے،اسی کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل عالمی ادارے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔
صدر اوباما کے دورِ صدارت کے آخری دِنوں میں سیکیورٹی کونسل نے متفقہ طور پر (امریکہ نے غیر حاضر رہنا پسند کیا) قرارداد منظور کی تھی کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں مزید یہودی بستیاں بسانے سے بازرہے،لیکن اسرائیل نے حسبِ روایت اس قرارداد کو بھی مسترد کر دیا۔نیتن یاہو نے اوباما کے پورے دور میں اُن پر چڑھائی کئے رکھی، حتیٰ کہ جب ایران کے ساتھ نیو کلیئر معاہدہ ہونے جا رہا تھا اور مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا، تو بھی اسرائیلی وزیراعظم بار بار اوباما کو اِس سے باز رہنے کا ’’حکم‘‘جاری کرتے رہے، جب نیو کلیئر ڈیل کا اعلان ہو گیا تو امریکی کانگرس کی مضبوط اسرائیلی لابی نے کانگرس سے اس معاہدے کی منظوری کا راستہ روکنے کی پوری کوشش کی تاہم اوباما اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور دھمکی دی کہ اگر کانگرس نے معاہدے کی توثیق نہ کی تو وہ صدارتی ویٹو استعمال کریں گے۔ یہ دھمکی کام کر گئی اور معاہدہ طے پا گیا اِس دوران نیتن یاہو نے امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے اوباما کو بُری طرح لتاڑا اور یہ تک کہہ گزرے کہ اُن کے بعد جو صدر آئے گا وہ یہ معاہدہ منسوخ کر دے گا۔ صدر ٹرمپ اِس راستے پر بھی گامزن ہیں اور کسی نہ کسی بہانے اس معاہدے کی منسوخی چاہتے ہیں، ابتدائی طور پر انہوں نے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
ایک سابق امریکی صدر کارٹر فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کے زبردست حامی تھے اور کوشش کرتے رہے کہ اسرائیل کو فلسطین کے دو ریاستی حل پر آمادہ کر لیا جائے،لیکن اُنہیں اِس میں کامیابی نہ ہوئی تاہم اُن کا اب بھی یہی خیال ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا امن فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام میں ہی مضمر ہے،لیکن اِس جانب بھی کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی۔اب صدر ٹرمپ نے اِس اقدام کی مخالف پوری دُنیا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا جو حکم جاری کیا ہے اِس سے اسرائیل کے حکمران اور یہودی تو خوش ہوں گے اور اسے تاریخی اعلان قرار دے رہے ہیں،لیکن فلسطینی سرزمین کے جائز وارث فلسطینی عوام امریکہ کے اِس اقدام کو جارح اسرائیل کی بے جا حمایت سے تعبیر کر رہے ہیں۔
پاکستان اور عالم اسلام نے امریکہ کے اِس فیصلے پر زبردست ردعمل کا اظہار کیا ہے اسے امن کے لئے خطرناک قرار دیا ہے اور اِن خدشات کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کے اِس فیصلے سے خطے میں تشدد میں اضافہ ہو گا۔دُنیا کی بڑی طاقتوں چین، برطانیہ اور فرانس نے بھی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔فلسطینی تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے نے جہنم کے دروازے کھول دیئے ہیں۔فلسطینی اتھارٹی نے اسے امن کوششوں کے لئے ’’موت کا بوسہ‘‘ قرار دیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان اور اردن کے شاہ عبداللہ نے القدس کی حیثیت تبدیل کرنے کی ناپاک جسارت کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بھی13دسمبر کو طلب کیا گیا ہے۔
سعودی عرب اور مصر نے بھی صدر ٹرمپ کو اس فیصلے سے باز رہنے کے لئے کہا تھا، لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے اِن دوست عرب ممالک کے مشورے کو بھی کوئی حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں۔ صدر رجب طیب اردوان نے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے او آئی سی کا اجلاس تو بُلا لیاہے،لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی یہ غیر موثر تنظیم اِس معاملے میں کوئی ایسا کردار ادا کر سکے گی،جو امریکہ کے اِس فیصلے کو بدلنے کا باعث بن سکے۔ترکی پہلا مسلمان مُلک تھا،جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا،بلکہ اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے اُس وقت کے اسرائیلی رہنما ترک میزبانی سے فیض یاب ہوتے تھے، جب اسرائیل نے چند برس قبل غزہ کی ناکہ بندی کی تو ترکی نے ہی امدادی سامان کے جہاز اسرائیل روانہ کئے تھے اور جہاز روکنے پر اپنا سفیر بھی واپس بُلا لیا تھا، اب بھی رجب طیب اردوان سے مسلمان مُلک اچھی توقعات وابستہ کر سکتے ہیں۔اگر مسلمان مُلک موثر کردار ادا نہ کر سکے اور فیصلہ تبدیل نہ ہوا تو امریکہ کے زیر اثر ممالک بھی جلد ہی اِس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔

مزید :

اداریہ -