آؤ خوشامد کریں
خوشامد بیوی کی اگر کی جائے تو زندگی خوشگوار ہو سکتی ہے مگر تیسری دنیا میں خوشامد کام کو نکالنے کی غرض سے کی جاتی ہے اور خوشامد کرنے کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ بندہ خود سے بڑے کو دیکھ کر عجیب و غریب شکلیں بنانا شروع ہو جاتا ہے ۔جیسے کسی نے ایک دوست سے کہا کہ آپ مجھے فلسفی لگتے ہیں تو وہ ہلکی سی آنکھیں بند کر کے اور پیشانی پر سلوٹیں ڈال کرفلسفیانہ انداز میں پوچھنے لگ گیا’’ جی آپ کیا کہے رہے تھے؟ دوبارہ کہیے!‘‘بہرحال جس کی خوشامد کی جا رہی ہو وہ بھی بہت مشکل سے خود کو خوشامد سے بچا سکتا ہے ۔ایک واقعہ ہے کہ ایک طالب علم پروفیسر صاحب کی تعریف کئے جا رہا تھا تو پروفیسر صاحب طالب علم کی خوشامد سمجھ گئے ۔ مخاطب ہوئے ’’مجھے خوشامد پسند نہیں‘‘
طالب علم بھی کافی تیز تھا ۔ پروفیسر صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ’’ محترم سرایک توآپ کام بہت اچھا کرتے ہیں او ر خوشامد بھی پسند نہیں کرتے ،آپ کی کیا ہی بات ہے ‘‘پروفسیر صاحب بھی ہکے بکے رہ گئے اور اپنی تعریف سن کر خوشی سے پھولے نہ سمائے۔گاؤں کے چودھریوں نے ایک میراثی پالا ہوا ہوتا ہے جو ہر وقت تعریفوں کے پل باندھتا رہتا ہے اور چودھری صاحب بھی اندر سے خوش ہوتے رہتے ہیں اوریوں صحت بھی اچھی رہتی ہے۔شائد انسان اپنی تعریف سننا پسند کرتا ہے اور خواتین میں تعریف سننے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے ۔
’’دیکھو دیکھو کون آیا ‘‘والوں نے بھی میاں نواز شریف کے ساتھ کم نہیں کی ۔زرداری صاحب بھی اپنے ورکرز کے نعرہ’’ ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا جواب فلائنگ کس سے دے رہے ہوتے ہیں ۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
مانا کہ انسان اپنی تعریف سنناپسند کرتا ہے جس کا مظاہرہ فیس بک پر ملتا ہے اور سوشل میڈیا کی کامیابی بھی انہی تعریفوں میں نظر آتی ہے۔ میرے جیسا بندہ کوئی تحریر پوسٹ کرے یا پھر فوٹو اپ لوڈ کرنے کے بعدکم لایئک ملنے پر افسردہ ہو جاتا ہے۔رات بھر سو نہیں سکتا۔ حسین خواتین کی پوسٹس کو سوشل میڈیا پر جتنی تعریفیں ملتی ہیں اگر ایک تصویر اپ لوڈ کرکے اتنی ہی تعریفیں مجھ نا چیز کو مل جایءں تو شائد اپنے پاؤں زمین پر بمشکل دھر سکو ں، تمام حسین خواتین کو داد دینی پڑے گی۔
خوشامد کا خوبصورت منظر ہمیں جی ایٹ ممالک کی کانفرنس میں بھی نظر آتا ہے جہاں چھوٹی اقوام کے سفیر خوشامدی چہرے لیے معاشی ریلیف کیلئے کھڑے ہوتے ہیں ۔سربراہان کی ملاقات میں معاشی طور پر کمزور ملک کے سربراہ کے چہرے پر خوشامد صاف نظر آ رہی ہوتی ہے ۔بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ امریکہ جیسے طاقت ور ملک بھی جب طاقت کا استعمال کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں تو ان کے سفیروں خوشامد کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہیں۔کیا خیال ہے خوشامد کو اپنا قومی نشان نہ بنا لیا جائے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔