فارم کاغذ 45کا بیکار ٹکڑا، 48حلقوں کے ایک بھی فارم پر کسی کے دستخط نہیں

فارم کاغذ 45کا بیکار ٹکڑا، 48حلقوں کے ایک بھی فارم پر کسی کے دستخط نہیں
فارم کاغذ 45کا بیکار ٹکڑا، 48حلقوں کے ایک بھی فارم پر کسی کے دستخط نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

جولائی 2018ء کے الیکشن میں دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کے لئے جو پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے وہ ابھی تک اپنے ابتدائی کام کا بھی آغاز نہیں کرسکی، کیونکہ یہ بھی طے نہیں ہے کہ اس کمیٹی کا دائرہ کار کتنا ہے اور اسے کن ضوابط کی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا ہے۔ ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) کا جو ابتدائی ڈرافٹ بنایا گیا ہے، کمیٹی کے اپوزیشن ارکان نے اسے ماننے سے انکار کر دیا ہے، اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کمیٹی اپنا کام کب شروع کرے گی اور کب مکمل کرے گی، ویسے تو کام مکمل اسی وقت ہوگا جب شروع ہوگا، ابھی تک تو پہلا قدم ہی نہیں اٹھایا گیا، اس لئے کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ پارلیمانی کمیٹی کب اور کتنے عرصے میں، کس طریق کار کے تحت الزامات کی تحقیقات کے لئے کام کرے گی۔ یوں احساس ہوتا ہے کہ یہ کمیٹی وقت گزاری کے لئے تشکیل کر دی گئی ہے، ویسے تو قومی اسمبلی اب تک قائمہ کمیٹیاں ہی نہیں بنا سکی جو آئینی ضرورت ہے اور مقررہ مدت کے درمیان ان کی تشکیل ہونی چاہئے۔ قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا کام اس لئے تاخیر کا شکار ہے کہ حکومتی جماعت قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بنانا چاہتی جبکہ مسلم لیگ (ن) اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ دس سال سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ قائد حزب اختلاف ہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین ہوتا ہے، یہ مطالبہ منظور نہ ہونے کی صورت میں حزب اختلاف نے کسی کمیٹی کی رکنیت نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، حکومت بھی اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے اور چند روز قبل وزیراعظم نے سپیکر کو ہدایت کر دی تھی کہ وہ اپوزیشن کی نمائندگی کے بغیر ہی کمیٹیاں بنا دیں، لیکن ابھی تک سپیکر شاید اپوزیشن کو منانے کے خواہش مند ہیں، اس لئے انہوں نے تاحال وزیراعظم کی ’’ہدایت‘‘ پر عمل نہیں کیا۔ البتہ یہ خبر ضرور آئی ہے حکومت شہباز شریف اور خواجہ آصف کو تو کسی صورت پی اے سی کا چیئرمین نہیں بنائے گی البتہ سردار ایاز صادق قابل قبول ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ یہی ایاز صادق جب قومی اسمبلی کے سپیکر تھے تو ایک موقع پر عمران خان نے انہیں ’’جناب سپیکر‘‘ کہہ کر خطاب کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ انہیں ’’مسٹر ایاز صادق‘‘ کہیں گے۔ اس عزم کے اعلان کے بعد عمران خان شاید کبھی اسمبلی میں ہی نہیں گئے یا خطاب کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اب ایاز صادق کو پی اے سی کی سربراہی پیش کی گئی ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) مان نہیں رہی بلکہ اس دوران یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں سے بھی اپوزیشن کے ارکان استعفے دے دیں گے۔ بات تو پارلیمانی کمیٹی کی ہو رہی تھی، درمیان میں قائمہ کمیٹیوں کا ذکر ناگزیر ہوگیا۔ عام انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کے لئے کمیٹی تو جب بھی کام شروع کرے گی سو کرے گی لیکن اس دوران ایک این جی او فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں 95 فیصد فارم 45 ایسے تھے جن پر امیدواروں کے ایجنٹوں کے دستخط نہیں تھے۔ یاد رہے کہ یہ فارم 45 ہی ایک ایسا فارم ہے جس پر کسی بھی پولنگ سٹیشن کا نتیجہ درج ہوتا ہے، جس پر اس پولنگ سٹیشن پر ڈالے گئے ووٹوں کی تفصیل درج ہوتی ہے، تمام پولنگ ایجنٹ اس پر دستخط کرتے ہیں اور پریزائیڈنگ افسر کے دستخطوں کے ساتھ یہی ایک مصدقہ دستاویز ہوتی ہے جس پر کسی پولنگ سٹیشن کے نتائج کا اندراج ہوتا ہے۔ فافن کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 78ہزار 4سو 67فارمز میں سے 95فیصد پر امیدواروں یا ان کے ایجنٹوں کے دستخط نہیں تھے رپورٹ میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے 48حلقوں میں کوئی ایک فارم 45ایسا نہیں جس پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط موجود ہوں مزید 23حلقوں کے اعداد و شمار حاصل کرنے کے بعد یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے غیر دستخط شدہ فارموں کی صوبہ وار تفصیل کچھ یوں ہے۔
بلوچستان 98فیصد فارم 45پر دستخط نہیں
سندھ 97فیصد فارم 45پر دستخط نہیں
کے پی کے 95فیصد فارم 45پر دستخط نہیں
پنجاب 94فیصد فارم 45پر دستخط نہیں
الیکشن کمیشن نے فافن کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اعداد و شمار درست نہیں، الیکشن کمیشن خود مصدقہ رپورٹ جاری کرے گا، جب تک یہ رپورٹ نہیں آتی اس وقت تک تو فافن کے ان اعداد و شمار پر ہی انحصار کرنا ہو گا اور اس کے اخذ کردہ نتائج کو محض یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ایسی تنظیمیں غیر ملکی فنڈز سے چلتی ہیں ایسا ہی ہو گا لیکن یہ تنظیمیں پاکستان کے اندر حکومت کی باقاعدہ اجازت سے کام کرتی ہیں اور الیکشن کے متعلق ان کی جو رپورٹیں ’’پسندیدہ‘‘ ہوتی ہیں انہیں تو یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جاتا کہ یہ ایسی تنظیم نے تیار کی ہیں جو غیر ملکی فنڈز سے چلتی ہیں ویسے اگر اس سلسلے کو منطقی طور پر آگے بڑھایا جائے تو پاکستان کے اندر بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں جو بیرون ملک سے فنڈز لیتی ہیں اور تحریک انصاف کے خلاف اس کے اپنے ایک بنیادی رکن اکبر ایس بابر نے فارن فنڈنگ کے سلسلے میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے، خیر یہ تو الگ بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فارم 45پر دستخط حاصل کرنا قانونی ضرورت ہے یا نہیں اور کیا یہ پریذائیڈنگ افسر کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ فارم 45پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط حاصل کرے۔ ایسی شکایات جب پہلے منظر عام پر آئی تھیں تو الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا تھا کہ ہارنے والے امیدوار کے ایجنٹ شکست دیکھ دستخط کئے بغیر چلے جاتے ہیں لیکن فافن نے جن 48حلقوں کا ذکر کیا ہے کہ ان میں ایک بھی فارم پر دستخط نہیں ان حلقوں سے کامیاب ہونے والے امیدواروں کے ایجنٹوں نے بھی تو دستخط نہیں کئے لگتا ہے کہ فارم 45کاغذ کا ایک بے کار سا پرزہ تھا جس پر کسی نے دستخط کرنے کی ضرورت محسوس کی نہ کسی نے کروانے کی، اس کے باوجود ان انتخابات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے ۔ ایسے میں پارلیمانی کمیٹی اندھیرے میں ٹامک ٹویاں مارنے کے سوا کیا کر سکتی ہے؟
کاغذ کا بیکار ٹکڑا

مزید :

تجزیہ -