عمران خان قائداعظم ثانی ثابت ہو سکتے ہیں؟

عمران خان قائداعظم ثانی ثابت ہو سکتے ہیں؟
 عمران خان قائداعظم ثانی ثابت ہو سکتے ہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان آج اپنی تاریخ کے نازک نہیں نازک ترین مقام پر کھڑا ہے۔1947ء میں ہندوستان کے مسلمانوں نے جب ایک عظیم الشان ،بڑی اسلامی ریاست تشکیل دی اس وقت بھی مسلمان افتراق و انتشار کا شکار تھے۔ مسلمان تین بڑے گروہوں میں تقسیم تھے۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ انگریزوں سے بزورِ طاقت حکومت چھینی جا سکتی ہے۔ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے مسلح جدوجہد کرنی چاہیے۔ علامہ مشرقی جیسے نابغہ روزگار قسم کے عظیم لوگ اس نظریے کے حامل تھے، ان کی خاکسار تحریک پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی تھی اس کی جڑیں بھی مضبوط تھیں، ان کی عوام میں پذیرائی بھی تھی۔ وہ منظم بھی تھے، متحرک بھی تھے ان کی نظریاتی تربیت بھی تھی۔ علامہ مشرقی کو اللہ رب العزت نے بولنے اور لکھنے کا ملکہ دیا تھا یہ دونوں صلاحیتیں عام طور پر اکٹھی کم ہی ہوتی ہیں، لیکن قدرت ان پر خاصی مہربان تھی پھر ان کی تنظیمی صلاحیت بھی لاریب تھی وہ اس زمانے کے ذہین فطین انسان سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے آکسفورڈ سے ٹرائی پوز بڑے امتیاز کے ساتھ کیا تھا۔ خاکسار تحریک کے عروج سے پہلے مسلمانوں کی کئی تحریکیں اسی نقطہ ء نظر کو آزما چکی تھیں۔ انہوں نے قوت کے ذریعے انگریزوں سے نجات حاصل کرنے کی کاوشیں کرکے دیکھ لی تھیں۔ مولانا عبید اللہ سندھی کی تحریک ریشمی رومال اور سید احمد شہید کی بالاکوٹ کے مقام پر شہادت نے یہ بات ثابت کر دی تھی کہ مسلح تحریکوں کے ذریعے انگریزوں کو شکست دے کر آزادی حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔
دوسرا گروہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر مشترکہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے آزادی ہند کے لئے کوشاں تھا جبکہ مسلمانوں کے اکابر علماء کی اکثریت اسی نظریے کی حامل تھی۔جمعیت علماء ہند مسلمان علماء کی کثیر تعداد آزادی ہند کے لئے کانگریسی ہندوؤں کے ساتھ مل کر مشترکہ جدوجہد کی حامی تھی۔ابوالکلام آزاد جیسے بڑے اکابر علماء بھی مشترکہ جدوجہد کے حامی تھے۔آل انڈیا مسلم لیگ ابتداء میں انگریزوں کے وفادار کے طور پر مسلمانوں کے لئے رعائیتوں کے حصول کی قائل تھی یہ جماعت بنانے والے مراعات یافتہ طبقات کے رئیس و نواب تھے وہ کسی قسم کی مدافعت وغیرہ کی بجائے انگریزوں کی تابع داری اور وفاداری کے ساتھ مراعات کے حصول کے داعی تھے۔اس کے علاوہ مسلمانوں میں کچھ دیگر مختلف الخیال گروہ بھی تھے جو اپنے اپنے نظریات کے مطابق معاملات کو آگے بڑھانے کے داعی تھے، لیکن ان کی شاید بہت زیادہ پذیرائی نہیں تھی۔


پنجاب کے زمینداروں کی یونینسٹ پارٹی بھی اپنا مقام رکھتی تھی۔ یہ پنجاب کے مراعات یافتہ زمینداروں پرمشتمل تھی اور یہ انگریزوں کے وفادار تھے۔ صوبہ سرحد میں سرخ پوش عبدالغفار خان کی قیادت میں کانگریسی لائن لیتے تھے۔ ہندی مسلمانوں کے مفادات اور آزادی ہند کے حوالے سے مولانا مودودی بھی اپنا نقطہ ء نظر رکھتے تھے۔ان کی آوااز توانا اور دلیل مستحکم تھی، لیکن وہ ابھی بہت زیادہ مقبول نہیں تھے، ابھی کچھ بننے کے مراحل طے کر رہے تھے۔یہ سب کچھ لکھنے اور بتانے کا مقصد یہ ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے بھی مسلمان منتشر تھے۔ فکری و عملی طور پر باہم دست و گریبان تھے وہ کسی بھی سیاسی لائحہ عمل پر متفق نہیں تھے۔ مذہبی طور پر بھی تقسیم در تقسیم تھے۔ ان میں سنی شیعہ کے ساتھ ساتھ دیو بندی، بریلوی اور وہابی تقسیم بھی عیاں تھی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی جماعت احمدیہ بھی مسلمانوں کی صفوں میں ہی برسرِ عمل تھی۔ مسلمانوں میں فکری اور عملی انتشار عروج پر تھا، لیکن اس کے باوجود وہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی عظیم الشان قیادت کے باعث مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے ایک ٹارگٹ کے حصول کی جدوجہد کی۔آل انڈیا مسلم لیگ نے 1930ء میں علامہ اقبال کے تخیل کو 1940ء میں ایک قرارداد کی شکل دی اور 1947ء میں تخیل ایک زمینی حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آ گیا۔ ایک طاقتور اور موثر لیڈرشپ کے ساتھ ایک کمزور قوم نے اپنا مقصد و ٹارگٹ حاصل کر لیا۔ پاکستان عالمی منظر پر ایک عظیم مملکت کے طور پر ابھر ا اور ہنوز اس کی اہمیت قائم و دائم ہے۔ قائداعظمؒ نے ہندی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے ایک نظریہ اپنایا، اس کی ترویج کے لئے محنت کی۔ مسلمانوں کو قائل کیا ، منظم کیا اوربالآخر سیاسی جدوجہد کے ذریعے 1947ء میں پاکستان کی تشکیل کو ممکن بنا دیا۔


آج ہم بھی ویسی ہی صورت حال کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بڑی مہارت اور ذہانت کے ساتھ اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’ یاتو ہم بہتری کی طرف جائیں گے یا۔۔۔‘‘ گویا اب ایک ایسا وقت آ گیا ہے کہ جہاں سے ہم آگے بھی جا سکتے ہیں اور تباہی و بربادی ہمارا مقدر بھی بن سکتی ہے۔ ہم مکمل طور پر تباہ و برباد بھی ہو سکتے ہیں۔ گویا اب ’’سٹیٹس کو‘‘ قائم نہیں رہ سکتا ہے۔ ہم بطور قوم ہمیشہ سے ’’وقت کو دھکا‘‘ دیتے رہے ہیں۔ ہم نے اپنی پائیدار تعمیر و ترقی کے لئے کبھی بھی بحیثیت قوم زیادہ سوچ و بچار نہیں کی ہے۔ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے ہیں کہ ہماری قومی زبان کیاہو گی 70سالوں کے بعد بھی سپریم کورٹ حکومت کو حکم جاری کر رہی ہے کہ قومی زبان اردو کو نافذ کرنے کے عملی اقدامات کرو۔ ہمارے افسر تو دور کی بات ہے ہمارے چھوٹے موٹے کلرک بھی اردو میں ایک نوٹ بھی تیار نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم نے ابھی تک اپنا نظام تعلیم ہی طے نہیں کیا ہے۔ اردو میڈیم یا انگلش میڈیم یا مدرسہ سسٹم۔ انگریزی میڈیم میں بھی کئی نظام ہیں۔ ہم نے اپنے سیاسی نظام کے بارے میں طے نہیں کیا کہ وہ کیا ہو گا۔ مقتدر کون ہو گا پارلیمنٹ بالادست ہے یا آئین پاکستان کہا جاتا ہے کہ آئین بالادست ہے۔ آئین کو کس نے تخلیق کیا ہے، پارلیمنٹ نے کیا مخلوق (آئین) اپنے خالق (پارلیمنٹ) پر بالادستی ہو سکتی ہے۔ پارلیمنٹ جب چاہے آئین میں ترمیم کر سکتی ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ پھر پارلیمنٹ ہی بالادست ہے، لیکن اس حقیقت کو بھی متنازع بنانے کی کاوشیں کی جاتی ہیں۔ ہمارے ادارے بھی کمزور اور نحیف ہیں، ہماری روایات بھی مبہم ہیں۔
ریاست کے چاروں ستون مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا بہت زیادہ قبول حالت میں نہیں ہیں۔ ہماری پارلیمانی تاریخ نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے۔ ہم نے اپنی قومی تاریخ کانصف عرصہ مارشل لاؤں کے سائے میں گزارا۔ پارلیمانی عرصہ بھی بہت خوشگوار نہیں گزرا۔ ہم نے تین دساتیر تشکیل دیئے۔56،62اور 73کے آئین بنائے۔73 کا آئین بنانے والوں نے اس کے عملی نفاذ کے تین سالوں میں 7ترامیم کر ڈالیں پھر جنرل ضیاء الحق آئے تو انہوں نے ایک ترمیم (آٹھویں ترمیم) کچھ اس طرح کی کہ نظام حکمرانی آئینی طور پر پارلیمانی سے صدارتی بن گیا۔ ہمارے عوامی نمائندے بھی عوام کے اندر اپنی جڑیں بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ صوبائی اور علاقائی سیاست پروان چڑھ رہی ہے، صوبے اپنے اپنے طور پر خود مختار ہوتے چلے جا رہے ہیں نظام تعلیم الگ الگ ہو رہا ہے جس کے باعث مزید فکری انتشار پھیلے گا کیونکہ صوبو ں کو دی جانے والی آزادی، اور ’’خود مختاری‘‘ کسی عمیق و طویل سوچ و بچار کا نتیجہ نہیں بلکہ سیاسی مہم جوئی کا نتیجہ ہے اس کے نتائج بھی مہم جوئی کے نتائج کی طرح سامنے آ رہے ہیں۔


ریاست پاکستان اس وقت عالمی سازشوں میں بھی گھری ہوئی ہے پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار لانچ کی جا چکی ہے ہمارے سالار اعلیٰ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس حوالے سے قوم کو خبردار بھی کیا ہے۔ دشمن پاکستان کو ایک ناکام ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں دور جدید میں فوجیں بھیج کر ملک فتح کرنے کا رواج ختم ہوتا چلا جا رہا ہے اب فکری و نظری کشمکش پیدا کر کے کسی بھی قوم کے فکری و نظری اعضاء شل کئے جاتے ہیں ان کی فکر و عمل کی صلاحیتوں کو کمزور اور بالآخرختم کیا جاتا ہے نا امیدی پیدا کی جاتی ہے پھر بالآخر قوم تباہی و بربادی کی گہرائیوں میں غرق ہو جاتی ہے۔پاکستان اس وقت نامساعد حالات میں گھرا ہوا ہے ہمارے اردگرد ہمارے ہمسائے بھارت افغانستان ، ایران اور روس ہمارے دوستوں میں شمار نہیں ہوتے ہیں چین ہمارا واحد دوست ملک ہے چائنا، پاکستان اکنامک کا ریڈور کے ذریعے ہماری اہمیت میں اضافہ ہونے لگا ہے تو دشمنوں کی ہمارے خلاف کاوشیں اور سازشیں بھی بڑھتی چلی جا رہی ہیں انڈیا، افغانستان اور اسرائیل امریکہ کی سرپرستی میں پاکستان کے خلاف مورچہ زن ہیں ہماری معیشت انتہائی نازک صورتحال کا شکار ہے، سیاسی عدم استحکام بھی موجود ہے، کاروبار سلطنت کے ساتھ ساتھ کاروبار زندگی بھی بری طرح متاثر ہے۔ معیشت قرضوں کے بوجھ تلے تڑپ رہی ہے وسائل گھٹتے چلے جا رہے ہیں، عام آدمی معاشی اور معاشرتی مسائل میں الجھتا ہی چلا جا رہا ہے نوجوانوں میں بے روزگاری اپنی انتہاؤں پر ہے نا امیدی کا دور دورہ ہے یہ سب کچھ نا امیدی ہے مستقبل سے نا امیدی ایسی ہی صورتحال تھی جب دوسری جنگ عظیم ہوئی تھی نا امیدی، تباہی و بربادی تھی قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت نے قوم کو اکٹھا کیا، نظر یے کے مطابق لائحہ عمل دیا اور پھر عزم صمیم کے ساتھ آگے چل پڑے ، پھر دنیا نے دیکھا کہ صدی کی سب سے بڑی نظریاتی ریاست پاکستان معرض وجود میں آئی اور ہندوستان کے مسلمانوں کو آزادی نصیب ہوئی آج بھی ہم ایک ایسے ہی دوراہے پر کھڑے ہیں حالات نامساعد اور برے ہیں لیکن بہتری ہو سکتی ہے، نا امیدی ختم کی جا سکتی ہے۔ ضرورت فیصلہ کرنے کی ہے قوم کو راہ دکھانے کی ہے منزل دکھانے کی ہے۔ ضرورت قیادت کی ہے جو قوم کو متحد کر کے آگے لیجا سکے کیا عمران خان قائد اعظم ثانی ثابت ہو سکتے ہیں؟تاریخ منتظر ہے۔


مزید :

رائے -کالم -