پارلیمانی جمہوریت، شاہی مزاج نہیں چل سکتا!

پارلیمانی جمہوریت، شاہی مزاج نہیں چل سکتا!
 پارلیمانی جمہوریت، شاہی مزاج نہیں چل سکتا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کئی بار کوشش کر کے سیاست سے ہٹ کر لکھنے کی شعوری کوشش کرنا پڑتی ہے کہ ابھی تک ہمارے پیارے پاکستان میں سیاسی استحکام دور دور نظر نہیں آتا، کہ یہاں نظام پارلیمانی جمہوریت کا ہے اور نام بھی بار بار لیا جاتا ہے، لیکن عملاً جمہوری مزاج ہی نہیں بن سکا،چنانچہ مفادات حاوی رہتے ہیں، ماضی سے اب تک ایک اور عمل کا بھی مشاہدہ کیا کہ فوجی آمر تو بہرحال اختیارات کا ارتکاز کر لیتے ہیں تاہم ہمارے سیاسی قائدین بھی اس سے مبرا نہیں ہیں، اس سلسلے میں محترم ذوالفقار علی بھٹو سے محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف کے علاوہ اب وزیراعظم عمران خان کا بھی نام لیا جا سکتا ہے۔ یہ سب رہنما جماعتی سربراہی کے حوالے سے وہ اختیارات استعمال کرتے ہیں،جو آمر ذہنی طور پر صدارتی نظام کے قائل ہوتے ہوئے کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض اصولی معاملات میں بھی اَنا آڑے آ جاتی ہے اس کی ایک زندہ مثال قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کا تقرر ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان تو اس پر اتفاق رہا کہ میثاق جمہوریت والے فارمولے کے مطابق پی اے سی کا چیئرمین لیڈر آف اپوزیشن(قائد حزبِ اختلاف) کو ہونا ہے کہ سابقہ حکومت میں بھی سید خورشید شاہ اسی معاہدے کے مطابق چیئرمین رہے اور اب وہ اور ان کی جماعت محمد شہباز شریف کے حق میں رائے دیتی ہے کہ وہ اب لیڈر آف اپوزیشن ہیں اور حزبِ اقتدار نے باقاعدہ تسلیم کیا اور سپیکر نے نامزدگی کی، تاہم وزیراعظم عمران خان نہیں مان رہے،ان کے مطابق محمد شہباز شریف اور خواجہ آصف قابلِ قبول نہیں کہ وہ نیب زدہ ہیں اور شہباز شریف تو سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ وہ اپنے بھائی کا حساب کیسے لیں گے؟ یہی فارمولا پنجاب اسمبلی میں بھی چل رہا ہے کہ یہاں قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز ہیں اور وہ سابق وزیراعلیٰ کے صاحبزادے ہیں۔ یہ عجیب سی صورتِ حال ہے،جس کی وجہ سے اب تک مجالس قائمہ نہیں بن سکیں، حالانکہ قواعد کے مطابق یہ کام نوے روز کے اندر ہونا چاہئے اور یہ قواعد آئین کے ہی تابع ہیں۔ یوں تکنیکی طور پر آئین کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے، حیرت ہے کہ ابھی تک عدلیہ سے رجوع نہیں کیا گیا۔دوسری طرف بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ مسلم لیگ(ن) چونکہ اپنے قائدین کے خلاف نیب کی تحقیقات اور ریفرنسوں کو انتقامی کارروائی اور جھوٹے مقدمات اور ریفرنس قرار دیتی ہے اِس لئے وہ بضد ہے کہ پی اے سی کی چیئرمین شپ محمد شہباز شریف اور پنجاب میں حمزہ شہباز شریف کو ملنی چاہئے۔ یہ صورتِ حال ایک اور مشکل بھی پیدا کر رہی ہے وہ قانون سازی میں رکاوٹ ہے۔ ایوانوں کی کارروائی بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ درست کہ اب تک کوئی بھی معاملہ مجالس قائمہ کے غور والا نہیں آیا یا اگر آئے گا تو سپیکر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خصوصی کمیٹی بنا کر اس کے سپرد کر دیں،لیکن یہ قواعد سے اغماض ہو گا، اِس لئے بہترین عمل تو اس بات چیت اور مذاکرات کو کامیاب کرانا ہے، جو سپیکر کے توسط سے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں ہو رہے ہیں، حزبِ اقتدار کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اب تک قانون سازی کا عمل شروع نہیں ہو سکا، حالانکہ وہ خود ضرورت محسوس کر رہی ہے،ابھی حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہم قانون لا رہے ہیں اور ایسا وہ متعدد امور میں کہہ چکے ہیں، کہا جاتا ہے(ثواب و گناہ فواد چودھری کے سر) کہ حکومت آرڈیننس کے ذریعے قانون نافذ کرے گی۔ تاہم حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ کسی بھی آرڈیننس کی مدت 120 دن ہوتی ہے اور اس کے اندر اسے ایوان سے منظور کرا کے ایکٹ(قانون) بنوانا ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ پہلا وقت ختم ہو تو وقفہ دے کر اس آرڈیننس کو پھر سے نافذ کر کے 120دن کی زندگی مزید حاصل کر لی جائے،اِس لئے ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ فریقین کو پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں پر عمل کر کے بات چیت کو کامیاب بنانا چاہئے۔آخر نہ چاہتے ہوئے بھی تو محمد شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر ہضم کرنا ہی پڑتے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کو بھی خیال کرنا چاہئے کہ محمد شہباز شریف اور خواجہ آصف نشانے پر ہیں، سابق وزیراعلیٰ(لیڈر آف اپوزیشن) تو زیر حراست ہیں۔ خواجہ آصف بھی نیب کے راڈار پر ہیں، اِس لئے کسی اور بہتر تجویز پر غور کر لیں ممکن ہو تو عبوری طور پر ہی سابق سپیکر ایاز صادق پر اعتماد کر لیں کہ وہ بھی اپنی قیادت کے وفادار ہیں۔


آج دوسرے دو موضوعات پر بھی بات کرنے کا موڈ تھا،لیکن یہی ذرا طویل ہو گیا، اس لئے ایک اور جمہوری عمل کی بات کر لیتے ہیں۔ مثال تو یہ ہے کہ ’’ اب آیا اونٹ پہاڑ نیچے‘‘ وضاحت یہ ہے کہ اونٹ اونچے قد کا جانور ہے اور اسے اس پر ناز ہی نہیں غرور بھی ہے،لیکن جب کسی پہاڑ کی طرف سے گزرتے ہوئے وہ پہاڑ کے قریب تر آئے تو اسے احساس ہو جاتا ہے کہ وہ قد آور نہیں۔یہ پہاڑ تو کہیں بڑا ہے، ایسا ہی کچھ ہمارے سابق وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی کے ساتھ ہوا، جو حضرات ان کی سیاست میں آمد اور ان کے بارے میں کہانیاں سنتے آئے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ جمعیت علماء اسلام(ف) کی سٹیج پر نمودار ہوئے اور وہاں اپنی امارت کے رنگ دکھانے کے بعد کافی مشہور ہوئے اور ان کی امریکہ یاترا کے حوالے سے کہانیاں بھی مشہور ہوئیں، جو اب تک ان کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ صاحب خود کو اونٹ جیسا ہی سمجھنے لگ گئے تھے اور اب پہاڑ تلے آئے ہیں تو احساس ہو گیا اور وزارت سے مستعفی ہو گئے۔ تاہم وہ باہر آ کر وہی بات کر گئے جو ایک سٹیشن ماسٹر نے ایک انگریز مجسٹریٹ کے حوالے سے کی تھی۔ یہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا حقیقی واقع ہے کہ لاہور ریلوے سٹیشن پر سٹیشن ماسٹر(لاہوری تھے) نے وہاں تعینات مجسٹریٹ کی توہین کر دی۔ وہ گورا خاموشی سے اپنے چیمبر میں گیا اور محترم کو طلب کر لیا، سٹیشن ماسٹر نے جاتے ہی صاحب کے پاؤں پکڑ لئے اور رو رو کر معافی مانگی، جو دے دی گئی، وہ باہر آئے تو اکڑ کر چل رہے تھے، ایک چشم دید نے کہا ماسٹر صاحب! یہ کیا آپ تو۔۔۔ وہ جھٹ سے بولے: جو مَیں نے مجسٹریٹ کے ساتھ کیا وہ سب کے سامنے کیا تھا اور یہ جو مَیں نے معافی مانگی، کسی نے دیکھا تو نہیں۔
حضرت اعظم سواتی نے بھی باہر آ کر کہا کہ چیئرمین جماعت اور وزیراعظم نے تو ان کو کام جاری رکھنے کو کہا تھا،حالانکہ عمران خان برملا کہہ چکے تھے کہ اعظم سواتی محسوس کریں گے تو خود ہی مستعفی ہو جائیں گے، جیسے بابر اعوان ہوئے۔ ماشاء اللہ یہ ہوتی ہے بات کہ لیڈر شپ کا بھی اپنی اَنا کے لئے لحاظ نہ کیا جائے، حالانکہ ان کو تو کہنا چاہئے تھا کہ لیڈر شپ نے اصول کی خاطر استعفیٰ دیا۔ بہرحال جو حضرات اور دوست سمجھتے ہیں کہ یہ استعفیٰ نااہلی سے بچنے کے لئے دیا گیا تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ عدالت عظمیٰ سواتی کا ٹرائل آئین کے آرٹیکل62(1) کے تحت کرے گی اور الزام ثابت ہوا تو نااہلیت ہوسکتی ہے۔یوں بھی جب محترم سابق وزیر مظلومین سے معافی مانگ کر صلح کرتے ہیں تو پھر؟؟؟

مزید :

رائے -کالم -