کرائے کی جنگ

کرائے کی جنگ
کرائے کی جنگ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم عمران خان نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ پاکستان آئندہ کسی کے لئے کرائے کی جنگ نہیں لڑے گا۔اس طرح کا بیان ایک خود دار اور جراتمندانہ قیادت ہی دے سکتی ہے کیونکہ ماضی قریب میں کسی حکمران کی طرف سے اس دلیری کی مثال نہیں ملتی ہے۔ 1979 میں روس کے افغانستان میں حملے کے بعد امریکہ نے یہ جنگ پاکستان کے کندھے پر بندوق رکھ کر لڑی تھی۔اسلامی مجاہدین کی کھیپ تیار کی گئی، بے تحاشا اسلحہ فراہم کیا گیا ۔ایک مخصوص مسلک کی چھتری تلے اسے کفر اور اسلام کی جنگ بنا کر پیش کیا گیا۔
روسی افواج شکست خوردہ ہو کر واپس چلی گئیں سویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ،امریکہ نے ہزاروں میل کی دوری سے یہ جنگ جیتی اور دنیا میں اکیلا سپر پاور بن کر سامنے آگیا۔
پاکستان کو بدلے میں پچیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ، منشیات کے اڈے اور کلاشنکوف کا ایسا کلچر ملا کہ جس نے 1986 سے لے کر تا حال وطن عزیز کو لسانی۔ مذہبی فرقہ واریت کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا کہ اگر ایک قدم آگے بڑھائیں تو دو قدم مزید پیچھے ہوتے جاتے ہیں ۔رہی سہی کسر جمہوریت کے دعویداروں اور آمریت کے نام لیواؤں نے امریکہ کے پروردہ مالیاتی اداروں سے قرضے لے لے کر پوری کر دی۔ حکمرانوں کے اثاثے جس تیزی سے بڑھتے رہے بجٹ کا خسارے میں بھی اسی شدت سے اضافہ ہوتا رہا۔
وہ امریکہ جس کے حکمرانوں سے صدر ایوب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا وہ آمریکہ جسکی امداد کو جنرل ضیاء الحق نے مونگ پھلی سے تشبیہ دی تھی اسکی پالیسیوں نے پاکستان کو ایک ایسی ان دیکھی جنگ کا حصہ بنا دیا تھا جس میں دشمن کا چہرہ غیر واضح تھا ۔ ہم ہی مر رہے تھے ہم ہی مار رہے تھے مرنے اور مارنے والے کو ایک دوسرے کے گناہ کا علم ہی نہ تھا۔
کراچی۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا دشمن ایجنسیوں کے ٹارگٹ پر تھے۔دشمن کہیں زبان کی بنیاد پر تو کہیں فرقے و مسالک کی بنیاد پر اختلافات کی دیواریں کھڑی کرنے میں مصروف تھا تیس سال کے جمہوری حکمران نہ ہوں یا فوجی مارشل لآء کی حکومت۔کبھی ایمل کانسی کو امریکہ کے حوالے کیا تو کبھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو تو کبھی اسامہ بن لآدن کو سرحد پ�آر کر کے نشانہ بنایا گیا۔
غرض کہ ہر پاکستانی کو دنیا بھر میں مشکوک بنا دیا گیا۔
اسامہ بن لآدن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کے قصے سنانے والے یہ بات سمجھانے سے قاصر ہیں کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرنے والے تین سال امریکہ میں ٹریننگ حاصل کرتے رہے اور پانچ جہاز اغوا بھی کر لئیے گئے۔اور امریکن CIA کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو سکی۔ 9/11 کے بعد دنیا تو بدل گئی مگر یہ تبدیلی پاکستان کو ختم نہ ہونے والی جنگ میں دھکیل گئی۔ ستر ہزار سے زائد جانوں کی قربانی کئی بلین ڈالر کا معاشی نقصان پاکستان نے بھگتا ہے۔اس جنگ سے پہلے پاکستان کی صرف مشرقی سرحد یعنی پاک انڈیا بارڈر پر کشیدگی ہوتی تھی مگر اب تو افغان بارڈر ہو یا ایران بارڈر آئے دن جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں اور ان معاملات سے فائدہ اٹھانے کا ہندوستان کوئی موقع ضائع نہیں کرتا ہے ۔کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کی کاروائیاں اسکی جیتی جاگتی مثال ہے۔
گزشتہ تین دھائیوں میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اپنا بہت کچھ کھو چکا تھا اور قریب تھا کہ عیار دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب ہوجاتا مگر پاکستان کی مسلح افواج اور عوام کے اتحاد سے دشمن کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ سب سے اہم بات ملک میں جمہوریت موجود ہے فوج حکومت کی پالیسیوں کے ساتھ کھڑی ہے ۔عدلیہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ اپوزیشن اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور پاکستان کو اقتصادی طور پر دیوالیہ کرنے کی سازش دم توڑ چکی ہے۔
پاکستان پر شدید تنقید کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ اب پاکستان کو خط لکھ کر طالبان کے حوالے سے مدد مانگ رہے ہیں اور اب حکومت۔ افواج پاکستان اور پاکستانی عوام ایک پیج پر موجود ہیں کہ اب وہ کسی پرائی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے چاہے وہ امریکہ کی روس یا چین سے ہو یا ایران اور سعودی عرب کے کشیدہ تعلقات کی جنگ ہو پاکستان غیر جانبدار رہ کر مصالحانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔
پاکستان کی ریاست کی پہلی ترجیح پاکستان سے ہر قسم کی دہشتگردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہے ۔چاہے وہ مذھب کے نام پر ہو یا دیسی لبر ازم کے نام پر ہو۔تمام مسائل کو آئین پاکستان کی چھتری تلے حل کیا جائے گا اور بات چیت سے مسائل کا حل اولین ترجیح ہوگی کسی بھی مرحلے یر طاقت کا استعمال آخری آپشن ہوگا۔
اقتصادی طور پر ملک کو ابھی بھی مسائل کا سامنا ہے اور حکومتی ٹیم کی کئی کمزوریاں بھی سامنے آئی ہیں۔ رہی سہی کسر فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کے بیانات پورا کردیتے اور میڈیا کو ریٹنگ کی خوراک مل جاتی ہے۔مگر وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب کی نیت پر شک ممکن نہیں ہے اور امید ہے کہ وہ بہت جلد مسائل پر قابو پالیں گے۔ اور حکومت کی پالیسیوں کو ایسے ٹریک پر چڑھا دینگے جہاں سے پٹری سے اترنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہونگے اور ترقی کا یہ سفر تیزرفتاری سے جاری رہے گا۔

۔

نوٹ:یہ بلاگر کاذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔

مزید :

بلاگ -