میکاولی سیاست کا دور آگیا
چند روز پہلے ایک کالم میں میکاولی کی مشہور زمانہ کتاب ”پرنس“ کا ذکر کیا تھا۔ بہت سے قارئین نے ای میلز اور فون پر اِس کے بارے میں تفصیلی کالم لکھنے کی فرمائش کی ہے۔ بہت سوں کی رائے یہ تھی کہ اِس وقت عوام کو جس طرح کی سیاسی شعبدہ بازیوں کا سامنا ہے، اُن کی وجہ سے اُنہیں اِس کتاب کے مندرجات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہماری سیاست بھی ”پرنس“ میں بیان کئے گئے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ یوں تو اِس کتاب کے حوالے سے ہمیشہ ہی ذکر ہوتا رہا ہے، تاہم فی زمانہ اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے بعض سیاستدانوں نے تو اسے بغور پڑھ رکھا ہے، لیکن عوام کہ جنہیں اسے ضرور پڑھنا چاہئے۔ اس سے نابلد ہیں، حالانکہ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
میکاولی اپنے وقت کا جنیئس تھا مگر اُسے شیطان کا خطاب اس لئے دیا گیا کہ اس نے سیاست میں چھپے تمام شاطرانہ داو¿ پیچ بے نقاب کر دئیے۔ اُس کا تعلق اگرچہ غریب خاندان سے تھا، تاہم جب پندرہویں صدی میں اٹلی کے مشہور میڈیچی خاندان کو زوال آیا اور وہاں ایک نئی ری پبلک قائم ہوئی تو اس کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے حکومت کا ایک اہم عہدہ دیتے ہوئے فرسٹ سیکرٹری بنا دیا گیا۔ وہ 14 سال تک اس عہدے پر رہا اور اس نے اقتدار کی غلام گردشوں میں حکمرانوں کے لیل و نہار کو بہت قریب سے دیکھا.... پھر میڈیچی خاندان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اسے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں تو اس نے اس عرصے میں کتاب لکھی، جس پر آنے والی کئی صدیوں تک تنقید ہوتی رہی اور آج بھی اِسے مہذب انسانیت کے لئے ایک تہمت قرار دیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کتاب کو ناپسندیدہ قرا ردئیے جانے کے باوجود دنیا کی طرز سیاست اور حکمرانی نے اس سے گہرے اثرات قبول کئے ہیں۔ کسی نے بہت صحیح کہا ہے کہ جیسے شیطان ناپسندیدہ ہونے کے باوجود اپنے اَن گنت چیلے پیدا کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ اسی طرح پندرہویں صدی کا یہ جینئس میکاولی بھی رعایا پر حکمرانی کرنے والے بے شمار چیلے پیدا کرنے میں کامیاب رہا اور اِس کا ”فیضان نظر“ آج بھی جاری ہے۔
آج پاکستان میں” سیاست نہیں ریاست بچاو¿ “جیسے نعرے بھی لگ رہے ہیں، تاہم صدیوں پہلے میکاولی نے سیاست کو آرٹ کا درجہ دے کر اس میں سے مذہب اور اخلاقیات کو خارج کر دیا تھا۔ شاید اِسی حوالے سے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ دین سیاست سے نکل جائے تو باقی چنگیزی رہ جاتی ہے۔ میکاولی نے حکمرانی کے کچھ ایسے اُصول پیش کئے جن سے ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ تاہم آنے والے وقت میں حکمرانوں نے اِنہی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنے اقتدار کو دوام بخشا۔ حکمرانوں کے حوالے سے اُس کا کہنا تھا کہ اُنہیں چاہیے کہ اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں۔ چاہے وہ کتنا ہی ظالمانہ ہو۔ وہ کہتا ہے کہ حکمران اگراپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے ظلم اور دھوکہ دہی سے کام لیتا ہو تو برُائی یا اچھائی ثانوی چیزیں ہیں۔ اصل چیز اقتدار ہے، جسے ہر قیمت پر قائم رہنا چاہئے۔ وعدہ خلافی، دھوکہ دہی اور طاقت کے بے محابا استعمال میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ( میکاولی یہ بھی کہتا ہے کہ حکمران کیلئے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ضروری ہے کہ حکمران عوام کو دھوکے میں رکھے اور یہ ظاہر کرے کہ وہ مذہبی آدمی ہے۔ وہ اقتدار کو قائم رکھنے اور مستحکم بنانے کے لئے مذہب کو ایک واسطے کے طور پر استعمال کرے، کیونکہ مذہب کے نام پر عوام کودھوکہ دے کر خود کو باآسانی مشکلات سے بچایا جاسکتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ حکمران یا بادشاہ کی ذاتی صلاحیتیں اور خوبیاں کوئی چیز نہیں ہوتیں۔ یہ صرف اس کی طاقت اور ذہانت ہے جو اس کا اقتدار برقرار رکھ سکتی ہے، اِس لئے اُسے طاقت کا بے دریغ استعمال کرنا چاہئے۔ اِس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام اقسام کی سختیوں اور مظالم کو فوری طور پر نافذ کر دے۔ عوام کو مطیع اور فرمانبردار بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہر نوع کی بے انصافیاں اور ظلم و جبر ایک ساتھ شروع کر دئیے جائیں۔ وہ حکمرانوں کو یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے معاشرے کے معززین یا شرفاءپر انحصار کرنا کافی نہیں، کیونکہ یہ بہت چالاک اور مفاد پرست ہوتے ہیں، اُن کے برعکس عوام کو احمق اور فرمانبردار بنانا آسان ہوتا ہے، اِس لئے حکمرانوں کو عوام کا ذکر بار بار اور نجات دہندہ کے طور پر کرتے رہنا چاہئے۔ وہ اقتدار کو برقرار رکھنے کے خواہشمند حکمرانوں کو یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ وہ بیک وقت ایسا رویہ اختیار کریں کہ لوگ بیک وقت اُن سے خوف بھی کھائیں اور نفرت بھی نہ کریں۔ جب تک حکمرانوں کا خوف لوگوں کے دلوں پر قائم رہتا ہے، اُن کے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ بغاوت کا جذبہ رکھتا ہے، اِس لئے بغاوت کے اِس جذبے کو سختی سے کچل دینا چاہئے۔
پھر وہ ایک اور دلچسپ حقیقت بیان کرتا ہے۔ اُس کے خیال میں کامیاب حکمران کے لئے ضروری ہے کہ ُاس میں شیر اور لومڑی کی صفات بیک وقت موجود ہوں، کیونکہ شیر اپنے آپ کو پھندے اور جال سے بچانے کا گُر نہیں جانتا، جبکہ لومڑی خود کو بھیڑیوں سے نہیں بچا سکتی۔ اِس لئے حکمرانوں میں ایک خوبی تو لومڑی کی ہونی چاہئے کہ وہ خود کو سازشوں اور چالوں سے بچا سکے اور دوسری خوبی شیر کی ہونی چاہئے کہ وہ بھیڑیوں کو خوفزدہ کر سکے، جو حکمران خود کو صرف شیر سمجھنے لگتے ہیں ،وہ تادیر حکمرانی نہیں کر سکتے، لومڑی کی چالاکی بھی اقتدار کے دوام کے لئے ضروری ہے۔ ایک حکمران کے لئے اس وقت ایماندار اور مذہبی ہونا ضروری نہیں، جب مذہب اور دیانتداری اِس کے مفاد میں نہ جاتی ہو، لیکن اگر ایمانداری اور امن پسندی کا ڈھونگ اس کے مفاد میں ہو تو اسے یہ ڈھونگ ضرور رچانا چاہئے۔ وہ کہتا ہے کہ ایسا حکمران کبھی اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتا جو خود ہی اعتراف کرے کہ وہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کر سکا۔ وعدہ شکنی بھی اہل اقتدار کی ایک خوبی تصور ہوتی ہے۔
حکمران کو اپنے اصل ارادے اور منصوبے کو پوشیدہ رکھنا چاہئے۔ عوام بہت معصوم اور سیدھے سادے ہوتے ہیں، وہ آسانی سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اِس لئے جب تک حکمران انہیں چالاکی اور ہوشیاری سے دھوکہ دیتا رہے ،وہ فریب کھاتے رہتے ہیں۔ میکاولی حکمرانوں کو یہ بھی بتاتا ہے کہ عوام کی اکثریت اپنے حکمرانوں کو صرف دور سے دیکھتی ہے، انہیں چُھو نہیں سکتی، اِس لئے حکمرانوں کو اپنا گیٹ اپ ایسا بنانا چاہئے کہ وہ سراپا رحم دل اور پاکباز نظر آئیں، اندرخانے چاہے جو کچھ کرتے رہیں۔
اقتدار کے خواہش مندوں کو رموزِ حکمرانی سکھانے والے پندرہویں صدی کے اس جینئس شیطان میکاولی کی کتاب ”پرنس“ نے دُنیائے سیاست اور نظریہءحکمرانی پر اَنمٹ اثرات مرتب کئے۔ اگرچہ یہ کتاب اُس کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی، تاہم مرنے کے بعد اُسے ایک نئی زندگی دے گئی۔ لذتِ حکمرانی سے سرفراز ہونے والوں کی اکثریت اُس کی پیروکار بن گئی۔ خاص طور پر تیسری دُنیا کے حکمرانوں نے میکاولی کو اپنا امام تسلیم کر کے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ہر وہ حربہ آزمایا جو اُس نے پرنس میں بیان کیا تھا۔
جہاں تک پاکستان کی تاریخ کا تعلق ہے تو حیرت سے دانتوں میں اُنگلیاں دبانے کی نوبت آجاتی ہے۔ اُف اس قدر مماثلت، اگر آج میکاولی زندہ ہوتا تو پاکستان کی 65 سالہ تاریخ پر ایک نئی کتاب ضرور لکھتا،جس میں بتاتا کہ اُس نے ”پرنس“ میں کامیاب حکمرانی کے جو سنہری اُصول پیش کئے تھے، اُنہیں پاکستان میں اِس خوبصورتی سے اپنایا گیا ہے کہ پاکستان ”پرنس“ کا عملی ماڈل نظر آتا ہے۔ پاکستان میں میکاولی کے تصورِ حکمرانی اور تصور سیاست کا ڈنکا کچھ اِس زور سے بجا ہے کہ دونوں لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں۔ وطنِ عزیز میں ایک طرف معصوم، بھولے بھالے اور لائی لگ عوام نظر آتے ہیں اور دوسری طرف سیانا، شاطر اور اختیارات سے لیس طبقہ جو بیک وقت شیر اور لومٹری کی خصوصیات کا حامل ہے اور جس نے بڑی چالاکی سے عوام کو ہمیشہ دیوار کے ساتھ لگا کر میکاولی کے ”پرنس“ میں پائی جانے والی رعایا بنائے رکھا ہے جو آئین کی 62،63 شق کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اِسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتا ہے جو عوام کا روز و شب دم تو بھرتا ہے ، لیکن اُنہیں حقوق دینے کی راہ میں رکاوٹیں بھی کھڑی کرتا ہے۔ اِس بار حالات کچھ ایسا رُخ اختیار کر رہے ہیں کہ میکاولی کے پرنسوں کو بات بگڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ عوام کے سامنے کئی پرنس بے نقاب ہو چکے ہیں اور بہت سوں کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں وہ کیا منہ لے کر عوام کے سامنے جائیں گے....؟ کہتے ہیں کہ بارہ سال بعد تو روڑی کی بھی سنی جاتی ہے ،جبکہ پاکستانی عوام کو تو 65 سال ہوگئے ہیں، اُس صبح کا انتظار کرتے، جس کا خواب اُن کے آباو¿ اجداد نے دیکھا تھا۔ عوام کو چاہیے کہ میکاولی کے پیروکاروں کو پہچانیں اوراُن کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں۔ سیاستدانوں کو بھی اب یہ علم ہوجانا چاہئے کہ شیر اور لومڑی کے اشتراک سے کھیلا جانے والا کھیل عوام کو بغاوت پر اُکساتا ہے۔ وہ بغاوت کہ جو کاخِ امراءکے در و دیوار ہلا دیتی ہے۔ ٭
چند روز پہلے ایک کالم میں میکاولی کی مشہور زمانہ کتاب ”پرنس“ کا ذکر کیا تھا۔ بہت سے قارئین نے ای میلز اور فون پر اِس کے بارے میں تفصیلی کالم لکھنے کی فرمائش کی ہے۔ بہت سوں کی رائے یہ تھی کہ اِس وقت عوام کو جس طرح کی سیاسی شعبدہ بازیوں کا سامنا ہے، اُن کی وجہ سے اُنہیں اِس کتاب کے مندرجات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہماری سیاست بھی ”پرنس“ میں بیان کئے گئے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ یوں تو اِس کتاب کے حوالے سے ہمیشہ ہی ذکر ہوتا رہا ہے، تاہم فی زمانہ اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے بعض سیاستدانوں نے تو اسے بغور پڑھ رکھا ہے، لیکن عوام کہ جنہیں اسے ضرور پڑھنا چاہئے۔ اس سے نابلد ہیں، حالانکہ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
میکاولی اپنے وقت کا جنیئس تھا مگر اُسے شیطان کا خطاب اس لئے دیا گیا کہ اس نے سیاست میں چھپے تمام شاطرانہ داو¿ پیچ بے نقاب کر دئیے۔ اُس کا تعلق اگرچہ غریب خاندان سے تھا، تاہم جب پندرہویں صدی میں اٹلی کے مشہور میڈیچی خاندان کو زوال آیا اور وہاں ایک نئی ری پبلک قائم ہوئی تو اس کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے حکومت کا ایک اہم عہدہ دیتے ہوئے فرسٹ سیکرٹری بنا دیا گیا۔ وہ 14 سال تک اس عہدے پر رہا اور اس نے اقتدار کی غلام گردشوں میں حکمرانوں کے لیل و نہار کو بہت قریب سے دیکھا.... پھر میڈیچی خاندان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اسے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں تو اس نے اس عرصے میں کتاب لکھی، جس پر آنے والی کئی صدیوں تک تنقید ہوتی رہی اور آج بھی اِسے مہذب انسانیت کے لئے ایک تہمت قرار دیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کتاب کو ناپسندیدہ قرا ردئیے جانے کے باوجود دنیا کی طرز سیاست اور حکمرانی نے اس سے گہرے اثرات قبول کئے ہیں۔ کسی نے بہت صحیح کہا ہے کہ جیسے شیطان ناپسندیدہ ہونے کے باوجود اپنے اَن گنت چیلے پیدا کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ اسی طرح پندرہویں صدی کا یہ جینئس میکاولی بھی رعایا پر حکمرانی کرنے والے بے شمار چیلے پیدا کرنے میں کامیاب رہا اور اِس کا ”فیضان نظر“ آج بھی جاری ہے۔
آج پاکستان میں” سیاست نہیں ریاست بچاو¿ “جیسے نعرے بھی لگ رہے ہیں، تاہم صدیوں پہلے میکاولی نے سیاست کو آرٹ کا درجہ دے کر اس میں سے مذہب اور اخلاقیات کو خارج کر دیا تھا۔ شاید اِسی حوالے سے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ دین سیاست سے نکل جائے تو باقی چنگیزی رہ جاتی ہے۔ میکاولی نے حکمرانی کے کچھ ایسے اُصول پیش کئے جن سے ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ تاہم آنے والے وقت میں حکمرانوں نے اِنہی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنے اقتدار کو دوام بخشا۔ حکمرانوں کے حوالے سے اُس کا کہنا تھا کہ اُنہیں چاہیے کہ اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں۔ چاہے وہ کتنا ہی ظالمانہ ہو۔ وہ کہتا ہے کہ حکمران اگراپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے ظلم اور دھوکہ دہی سے کام لیتا ہو تو برُائی یا اچھائی ثانوی چیزیں ہیں۔ اصل چیز اقتدار ہے، جسے ہر قیمت پر قائم رہنا چاہئے۔ وعدہ خلافی، دھوکہ دہی اور طاقت کے بے محابا استعمال میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ( میکاولی یہ بھی کہتا ہے کہ حکمران کیلئے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ضروری ہے کہ حکمران عوام کو دھوکے میں رکھے اور یہ ظاہر کرے کہ وہ مذہبی آدمی ہے۔ وہ اقتدار کو قائم رکھنے اور مستحکم بنانے کے لئے مذہب کو ایک واسطے کے طور پر استعمال کرے، کیونکہ مذہب کے نام پر عوام کودھوکہ دے کر خود کو باآسانی مشکلات سے بچایا جاسکتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ حکمران یا بادشاہ کی ذاتی صلاحیتیں اور خوبیاں کوئی چیز نہیں ہوتیں۔ یہ صرف اس کی طاقت اور ذہانت ہے جو اس کا اقتدار برقرار رکھ سکتی ہے، اِس لئے اُسے طاقت کا بے دریغ استعمال کرنا چاہئے۔ اِس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام اقسام کی سختیوں اور مظالم کو فوری طور پر نافذ کر دے۔ عوام کو مطیع اور فرمانبردار بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہر نوع کی بے انصافیاں اور ظلم و جبر ایک ساتھ شروع کر دئیے جائیں۔ وہ حکمرانوں کو یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے معاشرے کے معززین یا شرفاءپر انحصار کرنا کافی نہیں، کیونکہ یہ بہت چالاک اور مفاد پرست ہوتے ہیں، اُن کے برعکس عوام کو احمق اور فرمانبردار بنانا آسان ہوتا ہے، اِس لئے حکمرانوں کو عوام کا ذکر بار بار اور نجات دہندہ کے طور پر کرتے رہنا چاہئے۔ وہ اقتدار کو برقرار رکھنے کے خواہشمند حکمرانوں کو یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ وہ بیک وقت ایسا رویہ اختیار کریں کہ لوگ بیک وقت اُن سے خوف بھی کھائیں اور نفرت بھی نہ کریں۔ جب تک حکمرانوں کا خوف لوگوں کے دلوں پر قائم رہتا ہے، اُن کے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ بغاوت کا جذبہ رکھتا ہے، اِس لئے بغاوت کے اِس جذبے کو سختی سے کچل دینا چاہئے۔
پھر وہ ایک اور دلچسپ حقیقت بیان کرتا ہے۔ اُس کے خیال میں کامیاب حکمران کے لئے ضروری ہے کہ ُاس میں شیر اور لومڑی کی صفات بیک وقت موجود ہوں، کیونکہ شیر اپنے آپ کو پھندے اور جال سے بچانے کا گُر نہیں جانتا، جبکہ لومڑی خود کو بھیڑیوں سے نہیں بچا سکتی۔ اِس لئے حکمرانوں میں ایک خوبی تو لومڑی کی ہونی چاہئے کہ وہ خود کو سازشوں اور چالوں سے بچا سکے اور دوسری خوبی شیر کی ہونی چاہئے کہ وہ بھیڑیوں کو خوفزدہ کر سکے، جو حکمران خود کو صرف شیر سمجھنے لگتے ہیں ،وہ تادیر حکمرانی نہیں کر سکتے، لومڑی کی چالاکی بھی اقتدار کے دوام کے لئے ضروری ہے۔ ایک حکمران کے لئے اس وقت ایماندار اور مذہبی ہونا ضروری نہیں، جب مذہب اور دیانتداری اِس کے مفاد میں نہ جاتی ہو، لیکن اگر ایمانداری اور امن پسندی کا ڈھونگ اس کے مفاد میں ہو تو اسے یہ ڈھونگ ضرور رچانا چاہئے۔ وہ کہتا ہے کہ ایسا حکمران کبھی اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتا جو خود ہی اعتراف کرے کہ وہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کر سکا۔ وعدہ شکنی بھی اہل اقتدار کی ایک خوبی تصور ہوتی ہے۔
حکمران کو اپنے اصل ارادے اور منصوبے کو پوشیدہ رکھنا چاہئے۔ عوام بہت معصوم اور سیدھے سادے ہوتے ہیں، وہ آسانی سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اِس لئے جب تک حکمران انہیں چالاکی اور ہوشیاری سے دھوکہ دیتا رہے ،وہ فریب کھاتے رہتے ہیں۔ میکاولی حکمرانوں کو یہ بھی بتاتا ہے کہ عوام کی اکثریت اپنے حکمرانوں کو صرف دور سے دیکھتی ہے، انہیں چُھو نہیں سکتی، اِس لئے حکمرانوں کو اپنا گیٹ اپ ایسا بنانا چاہئے کہ وہ سراپا رحم دل اور پاکباز نظر آئیں، اندرخانے چاہے جو کچھ کرتے رہیں۔
اقتدار کے خواہش مندوں کو رموزِ حکمرانی سکھانے والے پندرہویں صدی کے اس جینئس شیطان میکاولی کی کتاب ”پرنس“ نے دُنیائے سیاست اور نظریہءحکمرانی پر اَنمٹ اثرات مرتب کئے۔ اگرچہ یہ کتاب اُس کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی، تاہم مرنے کے بعد اُسے ایک نئی زندگی دے گئی۔ لذتِ حکمرانی سے سرفراز ہونے والوں کی اکثریت اُس کی پیروکار بن گئی۔ خاص طور پر تیسری دُنیا کے حکمرانوں نے میکاولی کو اپنا امام تسلیم کر کے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ہر وہ حربہ آزمایا جو اُس نے پرنس میں بیان کیا تھا۔
جہاں تک پاکستان کی تاریخ کا تعلق ہے تو حیرت سے دانتوں میں اُنگلیاں دبانے کی نوبت آجاتی ہے۔ اُف اس قدر مماثلت، اگر آج میکاولی زندہ ہوتا تو پاکستان کی 65 سالہ تاریخ پر ایک نئی کتاب ضرور لکھتا،جس میں بتاتا کہ اُس نے ”پرنس“ میں کامیاب حکمرانی کے جو سنہری اُصول پیش کئے تھے، اُنہیں پاکستان میں اِس خوبصورتی سے اپنایا گیا ہے کہ پاکستان ”پرنس“ کا عملی ماڈل نظر آتا ہے۔ پاکستان میں میکاولی کے تصورِ حکمرانی اور تصور سیاست کا ڈنکا کچھ اِس زور سے بجا ہے کہ دونوں لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں۔ وطنِ عزیز میں ایک طرف معصوم، بھولے بھالے اور لائی لگ عوام نظر آتے ہیں اور دوسری طرف سیانا، شاطر اور اختیارات سے لیس طبقہ جو بیک وقت شیر اور لومٹری کی خصوصیات کا حامل ہے اور جس نے بڑی چالاکی سے عوام کو ہمیشہ دیوار کے ساتھ لگا کر میکاولی کے ”پرنس“ میں پائی جانے والی رعایا بنائے رکھا ہے جو آئین کی 62،63 شق کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اِسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتا ہے جو عوام کا روز و شب دم تو بھرتا ہے ، لیکن اُنہیں حقوق دینے کی راہ میں رکاوٹیں بھی کھڑی کرتا ہے۔ اِس بار حالات کچھ ایسا رُخ اختیار کر رہے ہیں کہ میکاولی کے پرنسوں کو بات بگڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ عوام کے سامنے کئی پرنس بے نقاب ہو چکے ہیں اور بہت سوں کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں وہ کیا منہ لے کر عوام کے سامنے جائیں گے....؟ کہتے ہیں کہ بارہ سال بعد تو روڑی کی بھی سنی جاتی ہے ،جبکہ پاکستانی عوام کو تو 65 سال ہوگئے ہیں، اُس صبح کا انتظار کرتے، جس کا خواب اُن کے آباو¿ اجداد نے دیکھا تھا۔ عوام کو چاہیے کہ میکاولی کے پیروکاروں کو پہچانیں اوراُن کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں۔ سیاستدانوں کو بھی اب یہ علم ہوجانا چاہئے کہ شیر اور لومڑی کے اشتراک سے کھیلا جانے والا کھیل عوام کو بغاوت پر اُکساتا ہے۔ وہ بغاوت کہ جو کاخِ امراءکے در و دیوار ہلا دیتی ہے۔ ٭