بسنت پر پابندی سے پتنگ متاثرین خوش، شائقین میں مایوسی
لاہور( لیاقت کھرل) بسنت کی مخالف تنظیموں کے نمائندوں اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے بسنت نہ منانے کے حکومتی فیصلہ کو ایک اچھا اقدام جبکہ حمایتی تنظیموں اور شائقین میں زبردست مایوسی پھیل کر رہ گئی ہے۔ ’’پاکستان‘‘ نے بسنت نہ منانے کے حکومتی فیصلہ کے بعد بسنت کی حامی ، مخالف تنظیموں اور شہریوں کی رائے معلوم کی تو بسنت کی مخالف تنظیموں کے نمائندوں راؤ محمد اکرم، شیخ احمد امین قادری، اکرام اللہ کاکڑ، عظیم سعدی اور احسن شیخ سمیت شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے حکومتی فیصلے کو زبردست سراہا اور کہا کہ بسنت ایک ہندووانہ تہوار ہے اور بسنت کوایک موسمی تہوار کی جگہ بعض افراد نے پتنگ بازی کی شکل میں ایک جان لیوا کھیل بنا کر رکھ دیا ہے ۔ حکومت نے بسنت نہ منانے کا فیصلہ دے کر جہاں سپریم کورٹ کے احکامات کی پابندی کو برقرار رکھا ہے وہاں بسنت کے موقع پر ہونے والی ممکنہ خونریزی سے معصوم جانوں کو بچایا ہے۔ اس موقع پر شیخ احمد امین قادری نے بتایا کہ سال 2005ء میں آخری مرتبہ بسنت منائی گئی۔ اس موقع پر لاہور میں 13 افراد اپنی جانوں سے محروم ہوئے جبکہ 145 افراد شدید زخمی ہوئے۔ اس حوالے سے اکرام اللہ کاکڑ نے بتایا کہ زخمی ہونے والے افراد میں زیادہ تر مستقل طور پر معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں اور آج تک کسی حکومت یا نمائندے نے متاثرہ خاندانوں سے مالی امداد تو درکنار ان سے اظہار ہمدردی تک نہیں کی ۔ اس حوالے سے سید عمران باقی نے بتایا کہ سال 2000ء سے سال 2005ء تک لاہورسمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں 964 افراد بسنت کی بھینٹ چڑھے اور 45 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں سے اکثریتی افراد معذوری کی حالت میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بسنت ایک قاتلانہ کھیل ہے جبکہ بسنت پر پابندی نہ اٹھانے پر شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی حکومتی فیصلہ کو زبردست سراہا ہے اور ’’پاکستان‘‘ سروئے میں شہریوں ارشد محمود، افتخار بھولا، وقار احمد، محمد بوٹا، قاری محمد صدیق اور حاجی گلزار احمد، نعمت اللہ خان، حاجی نصیر احمد اور حاجی محمد اکرم نے بسنت کو خونریزی کا نام دیا اور کہا کہ یہ ایک ہندووانہ تہوار ہے اس پر خواہ مخواہ بحث ایک احمقانہ فعل ہے۔ حکومت نے اس قاتلانہ کھیل کو نہ منانے کا اعلان کر کے ایک اچھا اقدام کیا ہے۔ اس حوالے سے بسنت کی حمایتی تنظیموں کے نمائندوں شیخ محمد سلیم، استاد لالہ بلو، خواجہ ندیم وائیں اور دیگرنے کہا کہ بسنت ایک موسمی تہوار ہے۔ حکومت نے بسنت کے لئے تجاویز تیار کروائیں اور محفوظ بسنت منانے کے لئے اعلان بھی کیا۔ اب اچانک بسنت نہ منانے کا اعلان کر کے حکومت نے ان کی خوشیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ بسنت کی تیاریاں دھری کی دھری رہ گئی ہیں جبکہ بسنت کے حامی شہریوں نے بسنت کی حمایت میں گو کم ووٹ دیا جس میں بسنت کے حمایتی اکرام خان، اکرم علی ، ارشد مولوی ، اسلم اوراصغر سمیت اکبر علی، سرور علی، زاہد حسین، شاہد علی اور حسن رانا نے کہا کہ حکومت کو محفوظ بسنت منانے کی اجازت دینا چاہیے تھی۔ اس لئے وزیر اعلیٰ کو نوٹس لے کر محفوظ بسنت منانے کی اجازت دینا چاہیے۔