اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت معاملات پر تبصرے کی اجازت نہیں

اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت معاملات پر تبصرے کی اجازت نہیں
اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت معاملات پر تبصرے کی اجازت نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:چودھری خادم حسین:

روایت ہی نہیں ،قانون اور قواعد بھی یہ ہیں کہ عدالتوں میں زیر سماعت امور پر باہر تبصرہ نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ فیصلہ نہ ہوجائے اور قانونی ماہرین بھی کہتے ہیں کہ فیصلے پر بات کی جاسکتی ہے اس میں بھی نیک نیتی شرط ہے۔لیکن یہاں تو ایسی الٹی گنگا بہتی رہی ہے کہ تبصرہ تو دور کی بات عدالت کے بعض ریمارکس کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا گیا حتیٰ کہ کسی فریق نے اسے مثبت جانا اور کسی نے اسے توہین قرار دیا، پاناما لیکس کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ایک بڑے پانچ رکنی بنچ کے سپرد ہے، اس کے باوجود سماعت سے پہلے اور بعد میں اظہار خیال ہونا اور پھر الیکٹرانک میڈیا پر ٹاک شوز بھی ہوتے ہیں ان میں اراکین پارلیمنٹ حتیٰ کے وزیر بھی حصہ لیتے ہیں،ان سب کے علم میں بھی یہ اصول ہے اور پھر پارلیمانی اراکین کو تو یہ بھی یاد ہونا چاہیئے کہ پارلیمنٹ میں بھی کسی زیر سماعت (SUB JUDICE) معاملے پر بات نہیں ہو سکتی۔یہ قواعد و ضوابط کار قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں تحریر ہے اور اس مسئلہ پر بہت سی اسمبلیوں سے سپیکر حضرات کی رولنگ(فیصلے) بھی موجود ہیں،اس کے باوجود یہ سب کچھ جاری ہے۔
اس سلسلے میں دلچسپ امر یہ ہے کہ جو بھی دستاویزات یا تحریریں عدالت کیلئے ہوتی ہیں وہ پیش کرنے سے پہلے میڈیا کو فراہم کردی جاتی ہیں اور پھر ان کی صحت پر بات کی جاتی ہے حالانکہ عدالت میں پیش کئے جانے کے بعد یہ عدالتی ملکیت اور اس کی درستگی کا فیصلہ بھی عدالت مجاز ہی نے کرنا ہوتاہے، اس کے باوجود تبصرے ہوتے ہیں اور ان میں وزراء بھی شامل ہیں۔
جہاں تک سماعت کا تعلق ہے تو اب اس میں بوجوہ تعطل آیا ہے،جسے کئی معنی پہنا ئے جارہے ہیں حالانکہ اب تو یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ دل کی شریانوں میں نقص ہو تو انجیوگرافی اور پھر انجیو پلاسٹی کے بعد جب ڈاکٹر گھر جانے کی اجازت دیتے ہیں تو کم از کم ایک ہفتہ تو صحت یابی میں لگ جاتا ہے جس کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے کہ کام شروع کیا جائے ۔کسی فاضل جج کے لئے تو یوں بھی مکمل صحت یابی کی ضرورت ہوتی ہے کہ نہ صرف عدالت میں بیٹھنا ہوتا ہے بلکہ ذہن اور دل سے بھی کام لینا ہوتا ہے،اس لئے بنچ کے فاضل رکن کی یہ رخصت معمول کے مطابق ہے اور پھر بالآخر یہ سماعت شروع تو ہونی ہے اور اس کا فیصلہ بھی ہونا ہے۔
ہم عدالتی کارروائی کے حوالے سے کوئی رائے نہیں دیتے لیکن اب میڈیا پر جو دستاویزات آرہی ہیں یہ سب محترم فاروق لغاری کے توسط سے بھی مشتہر ہو چکی ہوئی ہیں،اس لئے اکثر لوگ ان سے واقف ہیں،بہر حال پروپیگنڈہ مہم موثر رہی ہے فیصلہ جو بھی ہو، عوام کو باور کرادیا گیا کہ گڑ بڑ ہوئی اور وہ یقین کئے بیٹھے ہیں،کیا دور جدید کی یہ کامیابی کافی نہیں؟
اب ایک نئی بحث شروع ہے اس کا تعلق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی جذباتی تقریروں سے ہے۔وہ پھر سے زمانہ طالب علمی والے لیڈر نظر آنے لگے ہیں،اور ان کی تقریروں اور الفاظ پر بڑے اعتراض ہونے لگے جن کو عدلیہ پر رعب ڈالناکہا جارہا ہے اور تحریک انصاف والے تو اسے توہین عدالت کہہ رہے ہیں۔ جو بھی ہو رہا ہے ہمارے نزدیک درست نہیں ہے، خواجہ سعد رفیق سمیت،عمران خان، نعیم الحق اور دوسرے سب حضرات کو بھی احتیاط سے کام لینا ہوگا کہ ملک اور معاشرے میں فساد کی بنیاد پڑ رہی ہے جو حالات حاضرہ میں قطعاً درست نہیں۔ عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں تو پھر عدالت کو فیصلہ بھی کرنے دیں۔ مثبت یا منفی انداز سے کوئی بھی اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کرے بلکہ ہمارے خیال میں تو اب خود فل بینچ(بڑے بینچ) کو ہی یہ ہدایت کردینا چاہیے کہ عدالتی کارروائی پر کوئی تبصرہ، تنقید نہیں ہوگی اور صرف وہی کچھ نشر اور شائع ہوگا جو عدالت میں ہونے والی کارروائی ہوگی۔اسی طرح یہ سلسلہ رک سکے گا۔
کیا ہمارے لئے ارد گرد نظر ڈالنا ضروری نہیں،ذرا غور کریں تو یاد آجائے گا کہ بھارتی حکومت نے دفاعی فوجی بجٹ میں بہت اضافہ کر دیا، اب خبر ہے کہ بھارت نے دو کھرب کے ہتھیاروں کے آرڈر دے دیئے ہیں اور بھارتی فوج ان کے سہارے دس روز تک مسلسل جنگ لڑسکے گی (سبحان اللہ)۔ یہ تو مودی حکومت کا جنگی جنون ہے، اسے کچھ نہیں سمجھ آ رہا صرف پاکستان دشمنی پر اپنی سیاست کی بنیاد رکھے ہوئے ہے اور ہمیں بھی اسی کے مطابق خبردار رہنا ہے۔ اگر ہم الجھے رہے تو قومی مسائل کا کیا ہوگا؟ یہ کیسے لوگ ہیں کہ کشمیرکے مسئلہ پر متفقہ قرارداد منظور کرلیتے ہیں، ذرا لابنگ ہو تو قوانین بھی منظور ہوسکتے ہیں صرف سیاست میں آداب اور اخلاق بھول جاتے ہیں۔ اللہ کا نام لیں اور ملک و قوم پر رحم کریں۔
ایک دلچسپ خبر پر اختتام کرتے ہیں، خبر یہ ہے کہ بھارت نے کمانڈوز کے خصوصی دستے تیار کرائے ہیں، کوبرا کمانڈر کے نام سے 59 افراد پر مشتمل ایک گروپ مقبوضہ کشمیر میں تربیت مکمل کرکے ریل گاڑی سے بہار کی طرف آ رہا تھا کہ متعین کردہ مقام پر نہیں پہنچا اور گم ہوگیا۔ اب پوری حکومت اس گروپ کو تلاش کرتی پھرتی ہے، اسلحہ تو سرکار لے لے گی، اسلحہ چلانے والوں کے حوصلوں کا کیا کرے گی؟

مزید :

تجزیہ -