شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 25

Feb 08, 2018 | 11:25 AM

سیاسی حالات میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہُوئی تھی۔فسادزدہ علاقوں سے اب بھی برابر لوگ آرہے تھے۔۔اور وہی انتشار کی کیفیت تھی۔کچھ لوگ کہتے ‘پاکستان چلو ۔کچھ کا خیال تھا کہ بھوپال اگر آزادی کا اعلان نہیں کرتا تب تک بھی کم ازکم ریاست تو قائم رہے گی ۔اور ریاست کے قیام کا مطلب تھا کہ حکمران بھی بدستور موجود رہے گا۔ایسی صورت میں ریاست کو چھوڑ کر ہجرت کر نا غیر ضروری ہے۔میرے والدین بھی ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائے تھے۔اس کانتیجہ یہ ہواکہ میں جلدی ہی حالات سے اُکتا گیا۔لیکن اس اضطراب وتذیب میں تین ماہ گزر گئے۔اس عرصے میں آدم خوروں شیروں نے دو وارداتیں ایسی کیں ‘جن کو تو جہ اور دلچسپی سے دیکھنا پڑا ۔
ان دو وارداتوں میں سے ایک کی اطلاع مجھے دیرسے ملی ۔جو تین انگریز مجھے پہلے کراریہ اور بعدازاں جھولابن میں ملے تھے‘ان میں سے دو ان شیروں کا شکار ہو گئے۔۔۔اخبار میں جو تفصیل آئی ‘اُس پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھاکیونکہ ایک شکاری تفصیلات مبتلا نے کا خواہش مند ہوتا ہے‘وہ ایک غیرشکاری اخباری نامہ نگار نہیں بتا سکتا۔اگر برطانوی دور ہوتاتو سارے ملک کے اخبارات میں کھلبلی مچ جاتی ۔بڑی بڑی سُرخیوں کے ساتھ یہ خبر شائع ہوتی۔حکومت ہند خاص تحقیقاتی کمیشن بھیجتی ۔لیکن اب یہ حال ہواکہ مقامی اخبار کے سوا کسی بڑے اخبار نے یہ خبر نہیں دی۔

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 24 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دُوسری واردات میں پولیس کا ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر جسے وہاں نائب کہتے ہیں ‘مارا گیا ۔اُس کو کچھ خوشامدی ماتحتوں نے اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ وہ بہت بہادر اور بہت بڑا شکاری ہے۔وہ شیخی میں آ کر پو لیس کی اعشاریہ ۳۰۳لے کر آگیا اور جان گنوابیٹھا۔
مجھے ان دونوں وارداتوں کی تفصیلات جھولابن پہنچ کر معلوم ہوئیں ۔
عام طور سے آدم خور وں کے شکار میں جو ایک سہولت ہوتی ہے‘وہ اس معاملے میں قطعاً مفقود تھی۔اکثر آدم خور لاش کا کچھ حصہ کھا کر باقی حصہ دوسرے وقت کے لیے چھو ڑدیتے ہیں ۔۔شکاری اس چھوڑے ہوئے حصے کے قریب ہی کہیں چھپ رہتا ہے اور جب شیر آتا ہے تو اُس کو ہلاک کر دیتا ہے۔یہاں یہ معاملہ تھا کہ ایک کے بجائے تین آدم خور بیک وقت ایک شخص کو ہلاک کرتے اور ہمیشہ تقریباً بیک وقت ہی کھا پی کر چل دیتے تھے۔لہذا یہ طریقہ شکار اُن کے معاملے میں ناقابل عمل تھا۔
دوسری تدبیر یہ ہے کہ آدم خور کا تعاقب کر کے اُسے تلاش کیا جائے۔مگر اس کے لیے بہت ہمت اور سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔میں اس طریقے سے کئی آدم خوروں کو ٹھکانے لگا چکا ہوں اور خاصا تجربہ ہو جانے کی وجہ سے اس تدبیر کو اختیار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا لیکن اس موقعے پر اس تدبیر پر عمل کر نا جان بوجھ کر مو ت کے منہ میں جانا تھا،ایک شیر سے نپٹنا ہی نہایت خطر ناک کام ہے نہ کہ تین خوف ناک آدم خور وں سے مقابلہ ۔
جھولا بن کر پہنچ کر تین رو ز اسی تذبذب میں گزرے کہ ان شیروں کی ہلاکت کیلئے کیا تدبیر اختیار کی جائے۔ان تین دنوں میں نہ شیر وں نے کوئی واردات کی نہ کہیں سے ان کی مو جودگی کی اطلاع ہی موصول ہوئی۔چوتھے روز صبح کو ناشتے میں قدم رکھا تو عقب میں کچھ آہٹ معلوم ہوئی،گھوم کر دیکھا تو دلاور چلا آرہا تھا۔۔۔مجبوراً مجھے خاموش ہوناپڑا۔
صرف اس خیال سے کہ وہ نالی چار سو پچاس ایکسپریس تین شیروں سے مقابلے کیلئے کافی نہیں،میں نے تین سو پچھترہالینڈ اینڈ ہالینڈ میگنم ہاتھ میں رکھی،اس کی میگزین قابل اعتماد تھی۔میں دو نالی رائفل کو میگزین رائفل پر تر جیح دیتاہوں کیونکہ دونالی رائفل میں موجود کارتوس ہمیشہ زیادہ قابلِ اعتماد ہوتا ہے میگزین رایفلوں میں پانچ کارتوس ہونے کے باوجود اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں اچانک کارتوس پھنس نہ جائے ۔
شکار میں کامیابی بڑی حد تک موزوں ہتھیار کے انتخاب پر ہے۔دو نالی رائفل کی ایک نال اگر فائر ہو بھی چکا ہو ،تب بھی دوسری نال استعمال کے لیے موجود رہتی ہے۔میگزین رائفل میں اگر کارتوس پھنس جائے تو پھر رائفل اور لاٹھی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا اور حملہ آور شیر کا لاٹھی سے مقابلہ کرنا موت کے منہ میں کُود پڑنے کے برابر ہے۔
میگزینوں کی ساخت مختلف ہوتی ہے۔تین سو پچھترمیگنم کے میگزین میں ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں کارتوس تلے اوپر رکھے جاتے ہیں ۔اور ایک کارتوس فائر ہوکر نکلنے کے بعد دوسرا اوپر اٹھ کر اس کی جگہ لے لیتا ہے۔اکثر رائفلوں کی میگزین اسی قسم کی بنائی جاتی ہے۔(جاری ہے )

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 26 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں