جب سارے کام عدلیہ ہی کو کرنے ہیں تو ۔۔۔

جب سارے کام عدلیہ ہی کو کرنے ہیں تو ۔۔۔
جب سارے کام عدلیہ ہی کو کرنے ہیں تو ۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عدلیہ کے از خود نوٹسز سے عوام کو بے انتہا فائدہ ہوا ہے. ہم نے دیکھا کہ زینب قتل کیس سمیت کئی معاملات میں عدلیہ کے نوٹسز سے فوری انصاف کی راہیں ہموار ہوئی ہیں. کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے نوٹسز کے بغیر قصور پولیس اور پنجاب حکومت اتنی مستعدی دکھا پاتی جو عدلیہ کے دباؤ کی وجہ سے دیکھنے میں آئی؟ اگر تعصب سے ہٹ کر دیکھا جائے تو گزشتہ چند ماہ میں عدلیہ نے بچوں اور خواتین سے زیادتی، ماحولیاتی آلودگی، درختوں کی کٹائی، لینڈ مافیا کی اراضی پر ناجائز قبضے، یوٹیلیٹی سٹورز پر ناقص اشیاء کی فروخت، سرجیکل اشیاء کی حد سے بڑھتی قیمتوں، کٹاس راج مندر میں انتظامیہ کی غفلت اور میڈیکل کالجز میں فیسوں کے ہوشربا اضافوں سمیت عوامی بھلائی کے متعدد معاملات میں از خود نوٹس لیکر معاملات کو کافی حد بہتر بنایا ہے.
جمہوری نظام میں عدلیہ ریاست کے بقیہ تینوں ستونوں (مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا ) پر نگران ہوتی ہے. اس کا کام حکومتی اور انتظامی سطح پر عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اقدامات اٹھانا ہے. بقیہ جہاں تک عدالتوں میں انصاف کی فراہمی میں حد سے زیادہ دیر کا تعلق ہے تو اس کی زمہ داری صرف اور عدالتوں پر عائد نہیں ہوتی. عدالتی اصلاحات کے لیے قانون سازی کرنا حکومت کا کام ہے. اس کے علاوہ عدالتوں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے جسٹس کریمنل سسٹم اور پولیس کے نظام کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے. ایک اور اہم بات عدالتوں میں ججز کی کمی ہے.
آبادی کے بڑھنے سے مقدموں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے لیکن اس تناسب سے ججز کی تقرریاں نہیں ہو رہیں. ایک اور مسئلہ عدالتوں میں آئے روز کی ہڑتالیں ہیں. پنجاب میں ہائی کورٹ سمیت ضلعی عدالتوں میں گزشتہ سال میں مجموعی طور پر 3 ہزار 840 ریکارڈ کی گئیں؂. مقدمات نہ نمٹانے بارے بھی پروپیگنڈہ زیادہ اور حقیقت کم ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق صرف پنجاب میں رواں سال 30 لاکھ میں سے 21 لاکھ مقدمات نمٹائے گئے جبکہ 12 لاکھ مقدمات تاحال زیرسماعت ہیں ۔آخر عدالت کتنے ازخود نوٹس لے گی ۔اگر عوام کے مسائل کو عدالت نے خود ہی حل کرنا ہے تو ارباب اختیار کس لئے ہیں اور تو اور پولیس کس مرض کے لئے رکھی گئی ہے۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -