خدائی سکیم
مصائب انسانی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہیں۔ یہ اس خدائی اسکیم کا ایک حصہ ہیں جس کے تحت اللہ تعالیٰ اس زندگی میں ہمیں اچھے حالات کے ساتھ ساتھ برے حالات سے بھی آزماتے رہتے ہیں۔تاہم اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ مصائب امتحان کے لیے آتے ہیں اور یہ انسانی زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں، ہم سب مشکلات سے گھبراتے اور ان کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔
مصائب کے حوالے سے قرآن مجید کے تین بیانات ایسے ہیں جو بظاہر متضاد ہیں ، مگر درحقیقت وہ ایک ہی حقیقت کے تین مختلف پہلو ہمارے سامنے رکھتے ہیں ۔ یہ پہلو اگر کسی کے سمجھ میں آجائیں تو نہ صرف اس کی زندگی اس پر بہت سہل وآسان ہوجائے گی بلکہ اس کے مصائب اسے بہت کچھ دے کر جائیں گے۔قرآن مجید کے یہ تین بیانات درج ذیل ہیں۔
جو مصیبت نازل ہوتی ہے وہ اللہ کے اذن سے نازل ہوتی ہے۔اور جو شخص اللہ پر ایمان لے آتا ہے، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخش دیتا ہے، (التغابن11:64)
جو مصیبت نازل ہوتی ہے چاہے زمین میں ہو یا تم پر پڑے ،اس سے پیشتر کہ ہم اسے پیدا کریں، ایک کتاب میں لکھی ہوتی ہے ۔ یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔تاکہ جو چیز تمھارے ہاتھ سے جاتی رہے اس کا غم نہ کرو۔(الحدید22:57)
اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ تمھارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے آتی ہے۔اور اللہ تو بہت سے گناہ معاف کردیتا ہے۔ (الشوریٰ 2 30:4)
یہ تین آیات بظاہر مصائب وآلام کی تین الگ الگ توجیہات بیان کررہی ہیں، مگر درحقیقت یہ انسانی شخصیت کے تین اہم پہلوؤں کے لحاظ سے مصائب کو دیکھنے کے تین الگ الگ زاویے دکھارہی ہیں۔انسانی شخصیت کے یہ تین پہلو انسان کا روحانی وجود،انسان کا نفسیاتی وجود اور انسان کا عقلی وجود ہے۔
پہلی آیت اس بات کا بیان ہے کہ اس کائنات میں ہر جگہ اللہ کا اذن و اختیار چل رہا ہے۔ سب کچھ اس کی مشیت کے تحت اور اس کے علم سے ہوتا ہے۔جب یہ بات ہے تو پھر انسان کا روحانی وجود جو خدا سے متعلق ہوتا ہے وہ اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ میرے مالک کی ذات سے کسی شر کا صدور نہیں ہوسکتا۔ یہ مصیبت جو بظاہر ایک برائی بن کر میری زندگی میں آئی ہے، دراصل ایک خیر ہے۔گرچہ میں اس وقت اس خیر کا ادراک نہیں کرسکتا۔چنانچہ ایسے لوگ بظاہر نظر آنے والی اس خراب صورتحال میں خدا پر توکل کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی ہدایت میں اور ترقی ہوتی ہے۔ وہ توکل جیسی عظیم عبادت ادا کرکے اپنے ایمان کو کامل کرلیتے ہیں۔
دوسری آیت انسانوں کے نفسیاتی وجود کو ایڈریس کرتی ہے۔ انسان کی نفسیات یہ ہے کہ وہ لاکھ صبر و برداشت والا ہو، مصائب کے پیش آنے پر اسے سخت صدمہ اور تکلیف ہوتی ہے۔وہ پچھتاووں اور مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے میں یہ آیت انسان کو بتاتی ہے کہ ہر مصیبت چاہے وہ اجتماعی سطح پر آئے یا انفرادی سطح پر کسی فردپر آئے، خداکی وسیع تر اسکیم کا حصہ ہوتی ہے۔ اس کے پیش آنے سے قبل ہی تقدیر میں اس کا ہوکر رہنا لکھا جاچکا ہوتا ہے۔کوئی کچھ بھی کرلیتاجو نقصان ہوا وہ مقدر تھا۔یہ بات انسان کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ حقیقت کو قبول کرکے اور ماضی سے نگاہیں ہٹاکر مستبقل کی پلاننگ کرسکے۔
تیسری آیت انسانی عقل اور ضمیر کو مخاطب کرکے یہ بتاتی ہے کہ عالم اسباب میں یہ انسان کی اپنی کمزوریاں، غلطیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں جو مسائل کا سبب بنتی ہیں۔ اس لیے جو ہوا سو ہوا لیکن آئندہ انسان کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ اپنی کمزوریوں کو دور اور ا پنی غلطیوں کو ٹھیک کیے بغیر آئندہ بھی مسائل پیش آتے رہیں گے۔
چنانچہ یہ تین آیات تین پہلوؤں سے انسانوں کی روح، عقل اور نفسیات کو نہ صرف مطمئن کرتی ہیں بلکہ موجودہ مسائل کے باوجودان کے حال و مستقبل کو بہتر بھی بناتی ہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔