قدرتی وسائل: روسی کمپنی کی دلچسپی اور معاہدہ!

قدرتی وسائل: روسی کمپنی کی دلچسپی اور معاہدہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


توانائی میں قلت کے حوالے سے ہر برسراقتدار جماعت پریشان رہی اور کوشش کی کہ اس حوالے سے ضرورت پوری ہو ،تاہم قلت بدستور موجود ہے۔ آج بھی گیس کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، حالانکہ بلوچستان کے علاوہ پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں بھی گیس کے ذخائر ملے ہیں۔ اگرچہ سوئی کے مقام پر بلوچستان والی گیس کے ذخائر ہی ملکی ضرورت کا معتدبہ حصہ پورا کر رہے ہیں۔ تیل اور گیس کی وزارت ان قدرتی وسائل کی دریافت کے لئے بھی کوشش کرتی رہی ہے،تاہم بعض خوشخبریوں کے باوجود کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی، حالانکہ ہمارے اپنے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں یہ ذخائر موجود ہیں۔ تلاش کی ضرورت ہے۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن مغربی کمپنیوں کے مشرقی وسطیٰ میں قدرتی وسائل کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں۔ وہ پاکستان میں یہ ذخائر تلاش کرکے نہیں دیں گی، جبکہ یہاں اس کام کے لئے اب تک مغربی کمپنیوں ہی کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔اب موجودہ وفاقی وزیر پٹرولیم نے کہا ہے کہ ایک روسی کمپنی ’’انٹرسٹیٹ گیس سسٹم‘‘ نے دلچسپی ظاہر کی اور اس کے ساتھ ایم او یو ہو گیا ہے۔ یہ کمپنی پاکستان میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ اس کے تحت ملک کے اندر گیس اور پٹرولیم کی تلاش کے علاوہ روس سے گیس بھی مہیا کی جائے گی۔ یہ گیس سمندر کے راستے پائپ لائن بچھا کر لائی جائے گی اور روزانہ 8ملین سے ایک ارب کیوبک فٹ گیس مہیا کی جائے گی۔ گیس پائپ لائنوں کی تنصیب تین سے چار سال کے اندر مکمل ہو جائے گی۔
یہ ایک اچھی خبر ہے اس کی تحسین کی جانی چاہیے ،اگر روس کی کمپنی یہاں قدرتی وسائل کی تلاش کا کام کرے گی تو امکان ہے کہ دھوکا نہیں دیا جائے گا اور سندھ میں موجود ذخائر تلاش کر لئے جائیں گے جن کی شنید پہلے سے ہے۔ پاکستان کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی اور ضرورت پورا کرنے والی بات ہوگی، تاہم وزیر پٹرولیم نے روس سے بذریعہ سمندر جو گیس حاصل کرنے کی نوید سنائی ہے تو ان کو یاد ہونا چاہیے کہ ایسا ہی ایک معاہدہ پہلے سے موجود ہے۔ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف نے آذربائیجان اور تاجکستان کا دورہ کیا۔ وہاں پائپ لائن کی تنصیب کے کام کے آغاز کا افتتاح بھی ہوا تھا، یہ پائپ لائن زمینی راستے سے یہاں آنا ہے۔ بہتر ہوتا کہ اس معاہدے اور منصوبے کا بھی ذکر کر دیا جاتا، جو ’’تاپی‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اسے بھی تکمیل تک پہنچانے کا انتظام کیا جاتا۔ کوئی بھی حکومت کسی منصوبے کے لئے معاہدے کرتی ہے تو ضروری نہیں ہوتا کہ وہ منصوبہ اسی کے دور اقتدار میں مکمل ہو، کام باقی بھی رہ جاتا ہے، بہتر عمل یہ ہوتا ہے کہ جانے والی حکومت جو ترقیاتی منصوبے چھوڑ کر جائے ،ان کو بھی مکمل کیا جائے اور نئے بھی بنائے جائیں، بہرحال توانائی کی ضرورت پورا کرنے کے لئے جو بھی فیصلہ ہو گا ،اس کا خیر مقدم ہی کیا جائے گا۔

مزید :

رائے -اداریہ -