بلاول اور شیخ رشید کے لئے
کہا جاتا ہے کہ مخالفین کے لئے نامناسب جملے بھٹو استعمال کرتے تھے، مگر شیخ رشید اس فن میں بھٹو کے بھی استاد ہیں، اس وقت سیاست میں جو زبان استعمال ہو رہی ہے، اس کے روح رواں جناب شیخ رشید ہیں۔آپ عمران خان کی ابتدائی سیاست اور جملوں کے استعمال کو دیکھ لیں تو ان کے آج کے اور کل کے بیانات میں نمایاں فرق نظر آتا ہے، عمران خان نے سیاسی حوالے سے جو پہلا سخت جملہ کہا تھا۔۔۔ وہ شیخ رشید کے بارے میں ہی کہا تھا کہ ’’میں تو تمہیں اپنا چپڑاسی‘‘ بھی نہ رکھوں۔
عمران خان کا یہ جملہ شیخ رشید نے باقاعدہ ’’دِل‘‘ میں رکھ لیا اور فیصلہ کیا کہ مَیں عمران خان کی زبان بدل کے رکھ دوں گا اور پھر ہم نے دیکھا کہ شیخ رشید نے عمران خان کی ہی نہیں پوری تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں تک کی زبان بدل دی۔۔۔ اس وقت عمران خان سے لے کر ان کے وزیروں اور کارکنوں کی زبان درحقیقت شیخ رشید کی ہی زبان ہے۔ شیخ رشید دراصل ’’زبان کی کمائی‘‘ کھانے والے لیڈر ہیں اور ان کی خوبی ہے کہ جہاں جاتے ہیں اپنی زبان کے جوہر دکھاتے ہوئے نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں۔
کسی زمانے میں یہ نواز شریف کے وزیر تھے اور جلسوں میں اپنی ’’زبان دانی‘‘ کے جوہر دکھاتے تھے، انہوں نے بے نظیر بھٹو کے لئے ایسے ایسے جملے ادا کئے کہ محترمہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ میرے سیاسی مخالفین میرے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اِس بات کا بھی خیال نہیں رکھتے کہ وہ ایک خاتون کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
محترمہ نے کسی کا نام نہیں لیا تھا، مگر سمجھنے والے سمجھ گئے تھے کہ وہ شیخ رشید کے بارے میں کہہ رہی ہیں۔ گو کہ بعد میں انہوں نے شیخ رشید کو جیل میں ڈلواتے ہوئے ان کی زبان پر پابندی لگا دی۔۔۔مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ جب مشرف کے وزیر بنے تو پھر اپنی زبان دانی کے جوہر دکھانے لگے۔جنرل کے جانے کے بعد ان کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح نواز شریف کی پارٹی میں شامل ہو جائیں۔
مگر نواز شریف نے شیخ رشید کے نام پر ’’سیاہ دائرہ‘‘ کھینچ دیا، ’’تنگ‘‘ آ کر شیخ رشید نے نواز شریف کے خلاف ہی نہیں ان کے بیٹوں اور بیٹی کے خلاف بھی نامناسب جملے کسنے شروع کر دیئے۔انہوں نے نواز شریف کے بیٹوں کو ’’ببو گوشہ، لال ٹماٹر، مشینی بچے، نالائق بھانڈے‘‘ اور نجانے کن کن ناموں سے پکارا،خود نواز شریف اور شہباز شریف کے بارے میں اپنے ٹی وی انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ان لوگوں میں غیرت نہیں‘‘ ہے۔
نواز شریف نے تو کبھی شیخ رشید کے کسی سوال یا گالی کا جواب نہیں دیا۔۔۔ البتہ فیصل آباد کے رانا ثناء اللہ خان نے شیخ رشید کو ’’پنڈی کا شیطان‘‘ کا نام دے رکھا ہے، اب رانا صاحب کے اس جملے کو بلاول بھٹو نے استعمال کرتے ہوئے ایک مزید نامناسب جملے کا اضافہ کیا ہے، جو کہ میرے خیال میں بالکل نامناسب ہے۔ باوجود اس کے کہ شیخ رشید اپنے مخالفین کے لئے لفظ ’’غیرت نہیں ہے‘‘، بہت دفعہ استعمال کر چکے ہیں۔
بلاول بھٹو ایک نوجوان سیاست دان ہیں، عام طور پر وہ بہت سمجھ داری کے ساتھ بات کرتے ہیں اور اپنے پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دیتے رہتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ یہ ’’جملہ‘‘ انہوں نے کیسے کہہ دیا۔۔۔ جو کہ انہیں نہیں کہنا چاہئے تھا، سو جب انہیں غلط جملے کا احساس ہوا تو انہوں نے اس پر معذرت کر لی، جو اچھی بات ہے،مگر سوال یہ ہے کہ انہیں یہ جملے کہنے کی حد تک کون لایا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے بارے میں لاکھ الزام لگائے جا سکتے ہیں،مگر آصف علی زرداری نے اپنے مخالفین کے لئے نامناسب جملے کبھی نہیں کہے، نہ انہوں نے کبھی کسی کا نام بگاڑا ہے اور نہ گالی دی ہے، تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ بلاول بھٹو زرداری کا جملہ باپ اور ماں کی سیاسی تربیت کا نتیجہ نہیں ہے،بلکہ یہ موجودہ سیاست دانوں کے نامناسب جملوں کاردعمل ہے۔
کون نہیں جانتا کہ شیخ رشید نے بلاول کو کس کس نام سے پکارا ہے اور کس کس انداز میں پکارا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ایک ’’بزرگ‘‘ سیاست دان بلا سوچے سمجھے الفاظ ادا کرے گا۔ جگت بازی پر اتر آئے گا۔۔۔ ذاتی سطح پر اُتر آئے گا، تو پھر آکسفورڈ کا پڑھا لکھا سیاست دان کہاں تک ضبط کرے گا؟
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ سیاست دان زبان و بیان کے معاملے میں بہت نچلی سطح پر اُتر چکے ہیں، ہم نے دیکھا کہ تحریک انصاف کے مراد سعید نے پارلیمینٹ کی گیلری میں ایک بزرگ سیاست دان کو نہ صرف گالیاں دیں،بلکہ ان کے گریبان تک ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی، پھر انہی مراد سعید نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک رکن اسمبلی پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور اُچھل اُچھل کر قومی اسمبلی کو کھیل کا میدان بنا دیا۔
اب بھی قومی اسمبلی میں ‘‘بعض‘‘ ایسے موجود ہیں جو اپنی گفتگو کے ذریعے ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وفاقی اور صوبالی سطح پر ایسے وزراء موجود ہیں جو جملوں کی آگ لگائے رکھتے ہیں اور اگر کسی دن یہ لوگ سکون کا سانس لیں تو پھر شیخ رشید سامنے آ جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ جملوں کی آگ مدھم نہ ہونے پائے۔ میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ شیخ رشید اپنی زبان دانی پر کنٹرول کریں۔وہ اب ایک بزرگ آدمی ہیں، سو انہیں اپنی بزرگی کا بھرم رکھنے کی ضرورت ہے، انہیں اپنی عمر کے سیاست دانوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط کرنے کی ضرورت ہے اور بلاول بھٹو جیسے نوجوان سیاست دانوں کو اس سطح پر لانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ لوگ ان کے ’’بڑھاپے‘‘ کا بھی خیال نہ رکھیں۔
شیخ رشید سیاسی حوالے سے تنقید ضرور کریں، سیاست دانوں کے معاملات کو منظر عام پر لائیں، مگر کسی کا نام بگاڑنے سے گریز کریں۔یہی ان کے لئے بہتر راستہ ہے اور سیاست میں اگر ان کا کوئی ’’نظریہ‘‘ ہے تو اس نظریئے کے ساتھ آگے بڑھیں نہ دوسرے کی ماں، بہن اور بیٹی تک جائیں اور نہ کوئی ان کی عزت اور غیرت پر سوال اٹھائے۔
بلاول بھٹو کو بھی چاہئے کہ وہ شیخ رشید کی سطح پر نہ اتریں،کیونکہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی،ممکن ہے کہ آنے والے دِنوں میں شیخ رشید ان کے ’’وزیر‘‘ کے طور پر عمران خان پر گرجتے برستے نظر آئیں، سو اس لئے ان کے بیانات کے جوابات کے لئے کسی ایسے شخص کی ڈیوٹی لگائیں، جس کا سیاسی قد کاٹھ شیخ رشید کے برابر کا ہو۔۔۔ آپ جوان ہیں سو آپ اپنی گفتگو عمران خان تک محدود رکھیں۔۔۔بزرگوں کو معاف کر دیں۔۔۔