کیا عمران خان سنجیدہ ہیں؟
وزیر اعظم عمران خان اب بین الاقوامی سطح پر باتوں کی کمائی کھانا چاہتے ہیں، ہر بڑے فورم پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ پاکستان کے وزیر اعظم کم اور ایک بین الاقوامی مدبر بننے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں۔ ان کی اس کاوش کو دیکھتے ہوئے بی بی سی کے سابق نمائندے اور معروف ناول نگار محمد حنیف نے حال ہی میں انگریزی میں ایک مضمون تحریرکیا کہ جب بھی عمران خان معیشت پر بات کرتے ہیں تو انہیں ملکہ برطانیہ یاد آجاتی ہیں جس نے کبھی جیب میں پیسے رکھے اور نہ ہی کبھی متوسط طبقے کی کسی فیملی کی طرح ماہانہ بجٹ بنایا ہے۔
اس سے قبل وزیر اعظم ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ جو تنخواہ انہیں بطور وزیر اعظم ملتی ہے اس میں ان کا خرچ پورا نہیں ہوتا ہے۔ جب اس بات کو ایک شخص کے سامنے دہرایا تو وہ بتانے لگا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ مقررہوئے تو سوال پیداہوا کہ ان کی کیا تنخواہ ہونی چاہئے۔حضرت ابوبکر صدیق نے تجویز کیا کہ ان کی تنخواہ ایک مزدور کے برابر ہونی چاہئے۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ اس تنخواہ میں ان کا گزارہ نہیں ہوگا تو اس پر آپ نے کہا کہ آپ مقرر کیجئے، اگر میرا گزارہ نہیں ہوگا تو میں مزدو کی تنخواہ بڑھادوں گا۔ یہ بات سنا کر ہمارے مخاطب نے کہا وزیر اعظم کو جو کیش تنخواہ ملتی ہے وہ اس خرچ کے علاوہ ہوتی ہے جو ان کے رہن سہن پر عام پاکستانیوں کے ٹیکس سے خرچ کیا جاتا ہے، اس کے باوجود اگر عمران خان کا وزیر اعظم کی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا تو پھر ایک عام مزدور کی کیا حالت ہوگی!
ادھر ایک فیکٹری کے مالک سے بات ہوئی جو نسلی مسلم لیگی ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کے حامی ہیں تو کہنے لگے کہ گزشتہ ڈیڑھ برس میں ان کا بزنس آدھا رہ گیا ہے اور انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہی بات ایک پٹھان تاجر سے کہی تو وہ کہنے لگا کہ فیکٹری والا آدمی سچ بولتا ہے، میں روزانہ کام کاج کے سلسلے میں گاڑی میں ہزار سے ڈیڑھ ہزار کا پٹرول استعمال کرلیتا ہوں مگر نقصان ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے، ڈیفنس کے فیز نائن میں پانچ پانچ مرلے کے تین مکان بنا کر کھڑے کئے ہوئے ہیں، کوئی خریدنے والا نہیں ہے اور ماہانہ خرچہ علیحدہ سے برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ اس کے بقول اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک عام دیہاڑی دار کس طرح سے گزارہ کرتا ہوگا!
آزاد کشمیر کی اسمبلی میں جب وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حید ر نے وزیر اعظم کو تمام سیاسی جماعتوں سے مفاہمت کی مت دی تو موقع پر ہی وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں سے مفاہمت نہیں کریں گے۔ اس پر ایک زیرک شخص نے تبصرہ کیاکہ جب عمران خان خود مفاہمت کے لئے تیار نہیں تو وہ کس طرح او آئی سی کی کشمیر پر عدم مفاہمت کا رونا رو سکتے ہیں کہ او آئی سی کو بھی یہی گلہ ہے کہ اس کا مال کھا کر پاکستان کی قیادت کسی اور کے گن گاتی ہے، اس لئے او آئی سی بھی پاکستان سے مفاہمت کے لئے تیار نہیں ہے۔
درج بالا تمام باتیں مبنی بر حقیقت ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے اب اسے چوم چاٹ کر طاق میں رکھنے کی تیاری کر رہے ہیں، ان کا جی تبدیلی سے بھر چکا ہے اور وہ اس بات پر یقین کرتے جا رہے ہیں کہ پاکستان اور پاکستان کی معیشت کو چلانا عمران خان کے بس کی بات نہیں ہے، ٹی وی چینلوں پر مختلف شہروں کے سروے کوئی فرضی کہانیاں نہیں ہیں، ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ امسال 12لاکھ افراد بے روزگار ہوجائیں گے، ایساہے تو اس سال کے اختتام تک کیا تباہی آجائے گی اس کا اندازہ ابھی سے کیا جاسکتا ہے!
دوسری جانب لگتا ہے کہ اپوزیشن نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک عوام پر تبدیلی کے برے اثرات پوری طرح آشکار نہیں ہوتے، وہ بھی ٹس سے مس ہونے کے لئے تیار نہیں ہے، اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے نیفوں میں جبکہ حکومت کے اتحادی ہاتھوں میں چاقو کھولے پھر رہے ہیں، وہ وقت دور نہیں ہے جب یہ سب کے سب حکومت پر پل پڑیں گے!
وزیر اعظم عمران خان خیالوں کی بسائی ایک دنیا میں رہتے ہیں، وہ ڈٹ کر ایکسرسائز کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ ڈٹ کر کھانا کھاتے ہیں، ان کے نزدیک بھوک کے معنی وہ نہیں جو غریب پاکستانی کیلئے ہیں، وہ سمجھتے کہ غریبوں کی مددکے پروگرام کا نام احساس رکھ کر وہ عوام کو یقین دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ وہ عوام کی زندگیاں بدلنے میں سنجیدہ ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ انکے ایک اتحادی خالدمقبول صدیقی کاکہنا ہے کہ شروع میں ہم سمجھتے تھے کہ انہیں تجربہ نہیں ہے، لیکن اب لگتا ہے کہ وہ سنجیدہ ہی نہیں ہیں!