بنی اسماعیل ؑ اور اسرائیل کے درمیان معرکہ آرائی
ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطین،اسرائیل تنازعے کے حوالے سے پیش کردہ امن منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ”اگربیت المقدس ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہم مکہ و مدینہ بھی نہیں بچا پائیں گے“۔ اردوان صرف ترکی ہی نہیں، بلکہ ایک ایسے عالمی رہنما ہیں جو مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ترکی نے ان کی قیادت میں نہ صرف معاشی و معاشرتی تعمیر و ترقی کی منازل طے کی ہیں، بلکہ سیاسی استحکام کی بھی مثالیں قائم کی ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری میں بھی ترکی کو ایک باوقار مقام دلایا ہے اور عالم اسلام کے ایک قد آور لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں منگل 25 جنوری کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں اپنے اسرائیل، فلسطین امن منصوبے کا اعلان کیا۔ اس تقریب میں فلسطینیوں کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا، لیکن متحدہ عرب امارات، بحرین اور اومان کے سفراء موجود تھے۔ امریکی صدر نے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم کو بھی مخاطب کیا اور کہا کہ بہت سے ممالک اس معاملے میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں۔ آپ کو کئی ہمسائیہ اقوام سے تعاون ملے گا، اس کے علاوہ غیر ہمسائیہ اقوام بھی آپ کی حمایت کریں گی…… اردن اور مصر کے ساتھ تو اسرائیل کے امن معاہدے بھی ہیں، اس کے باوجود یہ ممالک بھی یہاں نہیں آئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا ان کی طرف سے بھی اس تقریب میں نمائندگی نہیں تھی، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ امریکی امن منصوبے کو کس قدر قبولیت ملے گی؟او آئی سی نے بھی اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ ایران، ترکی اور ملائیشیا اس منصوبے کو شدت کے ساتھ پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
ٹرمپ کے امن منصوبے کے مطابق بیت المقدس پر اسرائیل کے حق کو تسلیم کرنا ہوگا،کیونکہ اسرائیل پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ تاریخی اعتبار سے یروشلم ہی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت ہے، اس لئے اس کی تقسیم یا اس میں فلسطینیوں یا مسلمانوں کا کسی قسم کا حق تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،جبکہ مجوزہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس میں واقع ہوگا۔ مغربی کنارے اور اس سے ملحقہ علاقے پر اسرائیلی قبضہ ہو گا۔ فلسطینی رہنما محمود عباس نے بھی اس منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیل اور عربوں کے درمیان ہونے والے معاملات بھی بڑے عجیب رہے ہیں۔ جنگ عظیم اول میں برطانیہ عظمیٰ کی عیسائی افواج نے مسلمانوں سے ان کی خلافتِ عثمانیہ ہی نہیں، بلکہ ان کا قبلہ اول (بیت المقدس) بھی چھین لیا تھا۔ برطانیہ کے عیسائی حکمرانوں نے یہودیوں کے لئے ایک مملکت کا وعدہ کیا، بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے ریاست اسرائیل کے قیام اور تخلیق کی ابتداء ہوئی، حتیٰ کہ 1948ء میں عربوں کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست، ریاست اسرائیل کی ناجائز تخلیق کی گئی۔ اس کے بعد برطانیہ عظمیٰ عالمی قیادت کے منصب سے ہٹ گیا،پھر ریاست ہائے متحدہ امریکہ منصہ شہود پر آیا، ایک عالمی طاقت کے طور پر اس نے اسرائیل کی حفاظت اور سرپرستی کا فریضہ، فرضِ مذہبی کے طور پر سنبھال لیا اور ہنوز وہ یہ فریضہ بڑی تندہی اور ذمہ داری کے ساتھ نبھا رہا ہے۔ برطانیہ نے مسلمانوں سے قبلہ اول مذہبی جذبے کے تحت چھینا تھا، پھر اسے مذہبی عقیدت کے ساتھ ہی اسرائیلیوں کے سپرد کیا۔امریکہ 70 سال سے اس مذہبی جذبے کے تحت ہی اسرائیل کا ممد و مدد گار بنا ہوا ہے۔ اقوام عالم کی رائے کے برعکس یروشلم پر اسرائیل کا دعویٰ تسلیم کرنا اور اسے ریاست اسرائیل کا دارلحکومت ماننا، مذہبی ایشو نہیں تو اور کیا ہے؟
اسرائیل کی ریاست کا قیام کسی قومی یا لسانی تحریک کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ صیہونی تحریک (ZIONIST MOVEMENT) کی کامیابی کا ثمر ہے، جسے تھیوڈورہرزل نے شروع کیا تھا۔ صیہونی تحریک خالصتاً مذہبی تحریک تھی اور ہے جو گریٹر اسرائیل کے قیام کے لئے سرگرم ہے۔ گریٹر اسرائیل عہدِ داؤدی اورسلیمانی کی یادگار ہے، جب ہیکل سلیمانی کی مرکز یت میں یہودی قیادت اور عظمت کا بول بالا تھا، اللہ کی نعمتیں اور نوازشیں ان پر برس رہی تھیں،صیہونی اسی دورِ عظمت کو لوٹانے کے لئے کوشاں ہیں۔ ریاست اسرائیل کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جسے یہودی وعدۂ خداوندی کی تکمیل اور احیائے عظمت رفتہ اسرائیل کا ابتدائیہ قرار دیتے ہیں۔ یہودیوں نے یہ سب کچھ اچانک نہیں کیا، وہ صدیوں سے ایسا کرنے کے بارے میں سوچتے چلے آئے ہیں، انہوں نے اس حوالے سے منصوبہ سازی بھی کی ہوئی ہے۔ ان کے ایسے منصوبوں کی،ان کی سوچ و بچار کی ایک جھلک گزشتہ سے پیوستہ صدی میں ایک شہرہ آفاق کتاب " زعمائے صیہون کے منصوبوں کی دستاویز" کی شکل میں منظر عام پر آئی تھی، اس میں یہودی ذہن آشکار ہوتا اور ان کی انسان کش سوچ کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔ یہ کتاب(پروٹوکولز) ایک روسی صحافی نے شائع کی تھی، پھر اس کا ترجمہ مصر میں ہوا۔ عربی زبان میں یہ کتاب ایک پاکستانی مصباح الاسلام فاروقی کے ہاتھ لگی۔ وہ ایک درویش منش، اہل نظر تھے۔ مولانا مودودی سے متاثر تھے، انہوں نے اس کا ترجمہ کیا جو ابتداً ردو ڈائجسٹ میں چھپا، پھر انہوں نے اپنی ذاتی کاوشوں سے دینی جذبے کے تحت اس کتاب کو شائع کیا اور مسلمانوں کی تعلیم اور انہیں صیہونیوں کے انسان کش منصوبوں سے با خبرکرنے کی مخلصانہ کاوش کی۔ حیران کن بات ہے کہ یہ ”پروٹو کولز“ جب بھی چھپے، مارکیٹ سے غائب کر دئیے گئے۔ یہ کتاب روسی، عربی اور یورپی و مغربی مارکیٹوں سے ہی نہیں، بلکہ پاکستانی مارکیٹ سے بھی غائب کر دی گئی۔
مجھے اس کتاب کی ایک کاپی معروف عربی سکالر پروفیر ڈاکٹر عبداللہ یوسف عزام نے از راہ محبت عطا کی تھی، جسے پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور مجھے یہودیوں کے خبث باطن بارے جانکاری ہوئی۔ اسی دور میں یہودیت کے بارے میں ایک اتھارٹی کموڈور طارق مجید سے بھی واقفیت ہوئی۔ یہودیت کے بارے میں ان کی تحقیق حیران کن تھی، پھر کرنل محمد حامد نے یہودیت کے بارے میں ہماری دلچسپی کو مہمیز لگائی۔ یوسف ظفر نے اپنی تحقیق کی ابتداء اپنی کتاب " یہودیت" سے کی۔ ابتسام الٰہی ظہیر کے ساتھ بھی اس سلسلے میں گفتگو ہوتی رہی، ان کی لائبریری سے بھی استفادے کا موقع ملا۔ پھر تحقیق کاایک ایسا سفر شروع ہوا جو 20 سال سے جاری ہے۔ اس بارے میں ہمیں شک نہیں ہونا چاہیے کہ عیسائی اور یہودی، مسلمانوں کے خلاف ایک ہیں۔ عیسائی، صلیبی جذبات کے تحت اہل حرم کے دشمن ہیں، اسلام دشمنی ان کے خمیر میں شامل ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہودیوں کو عیسائیوں نے ہی نقصان پہنچایا ہے۔ ماضی قریب میں یہودیوں کے ساتھ ظلم و ستم روا رکھنے والی ساری اقوام عیسائی تھیں۔ تاریخ کا سرسری مطالعہ بھی یہ حقیقت آشکار کر دے گا کہ عیسائی، یہودیوں کو نیچ اور کمتر سمجھتے رہے ہیں۔ یہودیوں نے ہی مسیح ابنِ مریمؑ کی تکذیب کی۔ عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں کی طرف ہی مبعوث کئے گئے تھے، وہ خود بھی یہودی تھے، لیکن یہودیوں نے انہیں جھٹلایا اور بالآخر بظاہر انہیں صلیب دے دی۔
عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے عیسائی کہلاتے ہیں اور وہ حقیقتاً یہودیوں کو منکر اور کافر سمجھتے رہے ہیں، لیکن یہودیوں نے ایک خالص الہامی پیغام، مسیح کی تعلیمات میں تحریف کی۔ اس میں تثلیث داخل کی اور یہودیوں کو مسیح کو مصلوب کرنے کے الزام سے بھی بریت دلائی۔ پھر بتدریج یہودی عیسائیوں کو اپنی حمایت میں لانے میں کامیاب ہو گئے۔ بالفورڈیکلریشن ایسی ہی کاوشوں کا نتیجہ تھا،عیسائیوں کی مدد سے ریاست اسرائیل کا قیام یہودیوں کی ایسی ہی طویل منصوبہ سازیوں کے باعث ممکن ہوا اور گزرے 70 سالوں کے دوران یہودی گریٹر اسرائیل کے قیام کے لئے کوشاں ہیں۔ اسرائیل کے اطراف میں، اس کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ یہودی بستیوں کا قیام، ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق ہے اور ایک طے شدہ نقشے میں سرعت کے ساتھ حقیقت کا رنگ بھرا جا رہا ہے۔ اسرائیل کا اقوام عالم کی مخالفت کے باوجود یروشلم کو دارالحکومت قرار دینا، امریکہ کا سیکیورٹی کونسل کے تمام ممبران کی رائے کے برعکس، اسرائیل کے اس دعوے کو تسلیم کرنا اور اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنا”گریٹر اسرائیل“ کے قیام کے لئے ایک طے شدہ منصوبے کے عین مطابق ہے۔
صلیبی و صیہونی باہم شیرو شکر، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گریٹر اسرائیل کے خواب کو حقیقت کا رنگ دینے میں مصروف ہیں۔ٹرمپ کا پیش کردہ امن منصوبہ،کیونکہ اسی سمت میں ایک اہم پیش رفت ہے، اس لئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس کی تعریف و توصیف میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، انہوں نے اسے پائیدار امن کے لئے حقیقت پسندانہ راستہ قرار دیا اور کہا کہ ٹرمپ دنیا کے واحد رہنما ہیں، جن کا نام تاریخ میں اس لئے یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے یہودیہ(مغربی کنارے کا علاقہ) اور سامریہ پر اسرائیلی خود مختاری کو تسلیم کیا اور یہ ہماری سلامتی و ثقافتی ورثے کے لئے بہت اہم ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے میں اپنے زیر تسلط علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھے گا، جو امن منصوبے میں شامل بھی نہیں ہیں، اسرائیل پوری وادیء اردن کا فوجی کنٹرول بھی برقرار رکھے گا۔ اس طرح گریٹر اسرائیل کے قیام اور عالمی یہودی غلبے کی راہ ہموار ہوگی۔