کوئی گدڑ سنگھی ہے تو جلدی کر لیں …… 

کوئی گدڑ سنگھی ہے تو جلدی کر لیں …… 
کوئی گدڑ سنگھی ہے تو جلدی کر لیں …… 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لیجئے خواتین و حضرات ایک اور سیاسی اتحاد یا محاذ کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے۔ اس کے لئے پیپلزپارٹی کی دائمی قیادت چل کر کھانا کھانے، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے دولت کدے پر پہنچی۔ کھانا کھایا، تین گھنٹے مذاکرات کئے پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمن کو فون کر کے شامل گفتگو کیا۔ تاثر یہ دیا گیا کہ عمرانی حکومت کو گرانے کے لئے پی ڈی ایم جڑ رہی ہے جو پیپلزپارٹی کے انخلاء سے ٹوٹ گئی تھی۔ پھر سے جڑی ہوئی پی ڈی ایم عمرانی حکومت گرانے کا مقصد حاصل کر پاتی ہے یا نہیں یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس سوال کا جواب وقت ہی بہتر دے سکتا ہے۔ سردست تو وہ شور قابل غور ہے جو حکومتی ترجمانوں نے اپنے اپنے انداز میں مچایا ہے اس ملاقات کا اہتمام اس وقت کیا گیا جب وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت چین کے دورے پر تھے۔ اگرچہ یہ دورہ چین کے نئے سال کے آغاز پر منعقد ہونے والی سرمائی کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی غرض سے تھا۔

جس میں تیس دیگر ممالک کے حکمران بھی شریک تھے تاہم جب کبھی پاکستان کی قیادت چین یاترا پر جائے یا چین کے حکمران پاکستان کا دورہ کریں توقع ہوتی ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین مزید معاہدات (ترقیاتی، تعمیراتی، دفاعی) پر دستخط ہوں گے۔ امداد یا گرانٹ کے نام پر مزید قرضے حاصل کر کے ملکی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی جائے گی۔ یوں پوری قوم کی نظریں دورے کی طرف ہوتی ہیں۔ چین کے دورے سے یوں بھی توقعات زیادہ ہوتی ہیں کہ اب دنیا کی ترقی یافتہ، خوشحال طاقتوں میں سے چین ہی ہے جو پاکستان کے ساتھ دوستی کا حق ادا کرتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیر زمین ذخائر کی کھدائیاں ہوں، شاہراہوں کی تعمیر ہو، بجلی بنانے کے منصوبے ہوں، گوادر کی بندر گاہ کو ترقی دینا ہو یا صنعتی زون قائم کرنے ہوں ہر جگہ چین موجود ہوگا اور ہر منصوبے سے قبل معاہدہ ہوتا ہے جس پر ابتدائی گفتگو یا حتمی شکل اسی طرح کے دوروں میں دی  جاتی ہے۔ اس بار بھی دونوں ملکوں کی قیادت میں ملاقاتیں ہوئیں، بات چیت ہوئی، کچھ معاہدے بھی ہوئے ان کی تشہیر پاکستانی میڈیا میں ہوئی ضرور مگر پوری توجہ اس طرف نہ رہی۔


 آصف زرداری، بلاول بھٹو کی میاں شہباز شریف اور مریم نواز سے ملاقات اور میڈیا سے گفتگو اور پھر وفاقی و صوبائی ترجمانوں کے حسب معمول تیز ردعمل نے توجہ تقسیم کر دی۔ متذکرہ ”ضیافتی ملاقات“ کی ٹائمنگ کی غرض و غایت بھی غالباً یہی ہو گی۔ اگر اس ملاقات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی تحریک جمہوریت (پی ڈی ایم) میں واپسی ہوتی ہے تو یقیناً پی ڈی ایم کی طاقت میں اضافہ ہوگا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس کی قوت بحال ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ الگ الگ احتجاجی پروگرام کرنے کی بجائے مشترکہ تحریک چلانے پر بھی اتفاق رائے ہو جائے، اگر ایسا ہوا تو اسلام آباد کی سڑکوں پر ہونے والے متوقع ”دمادم مست قلندر“ میں قلندروں کی پھر مستیاں بڑھ جائیں گی۔ اسی وجہ سے ترجمانوں نے اس ملاقات کو آڑے ہاتھوں لیا اور اسے چوروں، ڈاکوؤں کی میٹنگ قرار دے کر ماضی میں ان کے آپس میں ہونے والے ”ملاکھڑے“ کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھیں، مقصد یہ باور کرانا تھا کہ ملک کو لوٹنے والے پھر سے اکٹھے ہو کر پھر سے لوٹنے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ مگر ایک دوسرے کے مخالف بلکہ دشمن اب عمرانی مخالفت میں یکجا ہو کر بھی عمران خان کی مضبوط حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ امکان بھی یہی ہے کہ الگ الگ مارچ، جلسے جلوسوں سے یا مشترکہ یلغار سے حکومت دھڑام سے نہیں گر جائے گی مگر حکومت مخالف جذبات مزید بھڑکانے میں مدد ضرور ملے گی جس کا نقصان آئندہ انتخابات میں حکمران جماعتوں کو ہوگا۔ جہاں تک ترجمانوں کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ بعد المشرقین رکھنے والی پیپلزپارٹی اور  ن لیگ کیسے اکٹھی ہو سکتی ہیں؟ انہیں علم ہونا چاہئے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے پہلے بھی کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ باہم دست و گریباں سیاسی جماعتیں، بے بسی کے عالم میں اپنے سے زیادہ طاقت والی قوت کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھی ہوئیں۔

جب مقصد پورا ہو گیا تو پھر سے الگ الگ انتخابی میدان میں اتریں اور ایک دوسرے کے خلاف پھر سے لنگر لنگوٹ کس لئے۔ ایوب خان کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتوں نے نوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت میں ڈیک (ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی) بنائی، ایوب حکومت ختم ہوئی تو 1970ء کے انتخابات میں سب اپوزیشن جماعتوں نے الگ الگ حیثیت میں حصہ لیا۔ البتہ بھٹو مرحوم کے خلاف بننے والا اتحاد پی این اے تو تھا ہی انتخابی اتحاد جس نے انتخابات میں حصہ لیا۔ کامیابی نہ ملی تو دھاندلی کے الزام میں احتجاجی تحریک شروع کی جو تحریک نظامِ مصطفٰ۔ کی شکل اختیار کر گئی اور بھٹو کی حکومت ہی نہیں ان کی جان بھی لے گئی۔ اس کے بعد پھر تتر بتر ہو گئی۔ اس تحریک کی قیادت بلکہ امامت مولانا مفتی محمود (مولانا فضل الرحمن کے والد) نے کی پھر اگلی نسل آئی تو میاں نوازشریف اور بینظیر بھٹو کی آپس میں سیاسی مخاصمت عروج پر تھی مگر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف دونوں نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچنے کا عہد کیا۔ اسی طرح نوازشریف حکومت کے خلاف پیپلزپارٹی، جے یو آئی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف سبھی اکٹھے ہوئے جبکہ بے نظیر حکومت کے خلاف یہی اپوزیشن جماعتیں میاں نوازشریف کے ساتھ مل گئیں۔

یہ سلسلہ یوں ہی چلتا آیا ہے اور عدم برداشت کے دیرینہ اسلوب کے باعث یوں ہی چلتے رہنے کا امکان موجود ہے۔ آج یہ پی ڈی ایم میں اکٹھے بھی ہو جائیں، مشترکہ تحریک پر آمادہ بھی ہو جائیں۔ جلسے، جلوس، مارچ اور دھرنے بھی کامیاب کرالیں۔ انتخابات کا بگل بجتے ہی ہر ایک کو اپنی پارٹی یاد آ جائے گی۔ سیاسی طور پر عملاً بھی مختلف پارٹیوں کا مل کر ایک نشان کے تحت الیکشن لڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہر پارٹی کے اندر سے بغاوت کے خدشات سر اٹھا لیتے ہیں۔ ہر وہ بندہ ناراض ہو جاتا ہے جس کی انتخابی ٹکٹ خطرے میں پڑ جائے۔ اس لئے سرکاری ترجمان خاطر جمع رکھیں کہ انتخابات میں ان سے مشترکہ، متحدہ انتخابی قوت کا سامنا ہونے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ آپ کو اگر خطرہ ہوگا تو مہنگائی بیروزگاری سے ہو گا۔ اس پر قابو پانے کے لئے درکار وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر عمران خان کے پاس کوئی ”گدڑ سنگھی“ ہے تو جلدی کر لیں ورنہ ”اِک واری فیر“ کا خواب خواب ہی رہ جائے گا۔

مزید :

رائے -کالم -