میری زبان کو بھی اے میرے حضور کاٹ

بے صبر ہونا ٹھیک نہیں ، بالضرور کاٹ
یہ قید عشق کی ہے دلِ نا صبور ، کاٹ
قسمت میں رنج ہیں تو ملیں گے ضرور رنج
بے شک تو جبر کرکے جبالِ سرور کاٹ
راحت ملے گی یعنی کہ تجھ کو سِپَند سے
پہلے تو کِشتِ کرب کواے بے قصور کاٹ
تو برگِ دل سے اے مرے فنکار ، صد ہزار
لازم یہ ہو چلا ہے کہ سنگِ فتورکاٹ
یہ بات ہے ، توکس کا ہے اب انتظار دوست
شہ کار کہہ رہا ہے کہ ظلمت سے نور کاٹ
میری زباں بھی چپ نہیں رہ سکتی کذب پر
میری زبان کو بھی اے میرے حضور کاٹ
منظر یہی تو اصل میں آکاس بیل ہے
باغِ تخیّلات سے شاخِ غرور کاٹ
کلام :منظرانصاری