آسمان کی چھت،زمین کا بچھونا ۔۔۔اور "فقیر سائیں "

افسانچہ
تحریر : سامعہ افتخار
کبھی ننھے سے بیج کو پودے کی صورت میں ابھرتا ہوا دیکھا ہے کیا؟ فقیر سائیں نے اچانک مجھ سے سوال کر ڈالا
میں حیرت سے انھیں تکنے لگا۔۔
"اس ننھے سے پودے کی تازگی سب کی آنکھوں کو کتنی خوشنما لگتی ہے۔۔۔
مگر کون جانتا ہے کہ اس ننھے سے پودے کو تناور درخت بنتے بنتے کتنی صعوبتوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے؟ چھاؤں میں بیٹھنے والے اس کے ماضی کی تکلیفوں سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔
وہ نہیں جانتے کہ کتنے موسموں کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے وہ اپنے اردگرد منسلک انسانوں کو اپنی گھنی چھاؤں میں سستانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔۔
یہی ایک سچے اور با وفا ہونے کی نشانی ہے۔۔۔
لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھو کے وقت کے ساتھ سب کچھ ختم ہوتا چلا جاتا ہے جیسے دیمک کسی لکڑی کے ساتھ چپک جائے تو لکڑی بے کار ہو جاتی ہے۔۔۔فقیر سائیں نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا
یہ ہی حال ایک انسان کا ہوتا ہے ۔ اس کی پیدائش کے وقت سب خوشیاں مناتے ہیں اور وہ سب کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے۔ لیکن گزرتے وقت اور حالات جاتے جاتے اس پر بہت گہری چھاپ لگاتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔ آسمان کی چھت اور زمین کا بچھونا آخر کار اس کا گھر ٹھہرتا ہے ۔ کبھی بے بسی میں آنکھوں سے رم جھم برسنے لگتی ہے تو کبھی سر پر چھائے کالے بادل کسی طوفان کی پیش گوئی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان سب کی وجہ وہ توقعات ہیں جو ایک انسان کسی دوسرے انسان سے وابستہ کر لیتا ہے اور حالات کی ستم ظریفی کے باعث پل بھر میں دوسروں کی نظر میں بے وقعت ہو جاتا ہے۔
وہ جو اپنے تھے پل میں ہوئے پرائے
کسی آشیانے کو جلتے ہوئے دیکھا ہے کیا ؟
محبت کے دھاگوں سے جو جڑ نہ پائے
کہ نفرت ہی آپس میں سب کو ملا دے
ارے فقیر سائیں: رشتوں کی اہمیت کو کتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے آپ نے،
واقعی رشتوں کو محبت سے جوڑیں گے تو ہمیشہ خوشی ہی ملے گی۔ نفرتیں بانٹیں گے تو زخمی دل کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔ میں نے ان کے سپاٹ چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
ہاں ایسا ہی ہے ۔ یہ زندگی اور اس سے منسلک فیصلوں کی عجیب منطق ہے۔۔۔
بیٹا۔۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا زندگی میں عروج اور زوال ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں ۔ اچھے وقت میں شکر ادا کرتے رہنا اور برے وقت میں صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے مت چھوڑنا ۔لوگ آئیں گے تمھیں توڑنے ۔ لیکن تمھاری خود اعتمادی ان کے ناپاک عزائم کو نیست و نابود کر دے گی۔ فقیر سائیں نے بدستور زمین پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔۔
جی فقیر سائیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ میں نے کہا
اب مجھے اگلے سفر پر جانا ہے اور تم اپنے گھر جاؤ۔ تمھارے اماں ابا انتظار کر رہیں ہوں گے۔۔ فقیر سائیں نے کہا
جی فقیر سائیں۔۔۔
میں نے سلام لیا اور اپنے گھر کی راہ لی۔ میں نے چند قدم کا فاصلہ طے کیا تو دل میں خیال آیا کہ فقیر سائیں سے دوبارہ ملنے کی اجازت لے لوں۔ میں جیسے واپس وہاں پہنچا تو وہاں کوئی موجود نہیں تھا ۔۔۔
میں نے ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے۔۔۔۔ فقیر سائیں فقیر سائیں کی آوازیں بھی دیں
مگر کوئی جواب نا پایا تو گھر واپس لوٹ آیا۔۔۔۔۔۔۔۔