تم جیسے غریب لوگ دیکھ دیکھ کر تالیاں پیٹ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب تمھاری خاطر ہورہا ہے

تم جیسے غریب لوگ دیکھ دیکھ کر تالیاں پیٹ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب ...
تم جیسے غریب لوگ دیکھ دیکھ کر تالیاں پیٹ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب تمھاری خاطر ہورہا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان 
 قسط:159
 تمام تر انتہا پسندی کے باوجود ہوٹلوں کے کاروبار پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا تھا۔ سب انتہا پسند ہوٹلوں میں جمع ہوتے۔ ہوٹل تمام مسافروں اور مویشیوں کا کاروبار کرنے والوں کی پسندیدہ آماج گاہ بن گئے تھے۔ بیف ٹرسٹ نے یہ چالاکی شروع کی کہ پہلے گوشت کی قیمت چڑھا دیتے جس سے سب لوگ اپنے مویشی لے کر وہاں پہنچ جاتے۔ سارے علاقے کے مویشی آجانے کے بعد یہ ٹرسٹ اچانک قیمت گرا دیتا اور جو منافع چاہتا کماتا۔ مویشی پالنے والے شکاگو میں اکثر یوں لٹتے کہ ان کے پاس مویشیوں کی ترسیل کا بِل دینے کے پیسے بھی نہ بچتے۔ وہ کسی سستے ہوٹل میں رہائش رکھتے اور اگر وہاں کوئی ٹرسٹ کے خلاف بولنے والا لابی میں تقریر کر رہا ہوتا تو انھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتاتھا۔ یہ مغربی لوگ ٹامی آدم کے لیے محض گوشت کا لوتھڑا تھے۔ وہ انھیں اپنے اردگرد اکٹھا کر لیتا اور ان کے سامنے ” نظام“ کی تصویر کشی کرتا۔یورگس ابھی تازہ تازہ ہی ملازم ہواتھااور آدم اس سے پورا فائدہ اٹھاتا۔ وہ کہتا ”دیکھو! یہ آدمی وہ ہے جس نے وہاں کام کیا ہے اور ساری برائیاں خود دیکھی اور بھُگتی ہیں! “ یورگس جو بھی کام رہا ہوتا، وہ چھوڑ کر آجاتا اور آدم کہتا ” کامریڈ یورگس ذرا ان لوگوں کو بتاو¿ تم نے بوچڑ خانے میں کیاکیا دیکھا۔“ شروع شروع میں تو اس درخواست پر یورگس گھبراجاتا لیکن آہستہ آہستہ اس کی جھجک کم ہوتی گئی اور پھر یہ نوبت آگئی کہ وہ اپنی باری پر اٹھ کر بڑے جوش وخروش سے اپنے تجربات سامعین کو بتاتا، جب کہ اس کا مالک ایک طرف بیٹھ کر سر کے اشاروں اور حیرت یا افسوس کی آوازوں سے اس کی حوصلہ افزائی کرتا رہتا۔ جب یورگس ” پوٹڈ ہیم “ (potted ham) کا فارمولا بتاتا یا یہ بتاتا کہ بیمار سوؤروں کو کس طرح فوری طور پر مارکرگھی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا تو ٹامی ہِنڈز اپنے گھٹنے پر مُکّا مار کر کہتا، ”بھلا کوئی آدمی ایسی بات خود سے جوڑ کر بنا سکتا ہے ؟ “
 پھر وہ بتاتا کہ ان خرابیوں اور برائیوں کا حقیقی علاج صرف سوشلسٹوں کے پاس ہے اور وہی ہیں جو بیف ٹرسٹ کے ساتھ ماتھا لگا سکتے ہیں۔ جب سامع کہتا کہ ان کی وجہ سے پورے ملک میں بے چینی ہے، اخبارات انھیں گالیاں دے رہے ہیں،حکومت ان کے خلاف اقدامات کر نے جا رہی ہے، تو ٹامی آدم جواب دیتا ،” ہاں، بالکل ایسا ہی ہے۔۔۔ لیکن تم کیا سمجھتے ہو کہ اس کی کیا وجہ ہے ؟ کیا تم اتنے احمق ہو کہ اسے عوام کے مفاد میں سمجھ رہے ہو ؟ پورے ملک میں بیف ٹرسٹ سے ملتے جلتے ناجائز اور لٹیرے ٹرسٹ اور بھی ہیں، مثلاً کوئلے کا ٹرسٹ،جو غریبوں کو سردیوں میں منجمد کرنے کا ذمہ دار ہے۔۔۔ فولاد ٹرسٹ ہے جو تمھارے جوتے میں لگے کیل کی قیمت دوگنی کردیتا ہے۔۔۔ تیل کاٹرسٹ ہے، جو رات کو تمھیں مطالعہ نہیں کرنے دیتا۔ اور تم کیا سمجھتے ہو کہ حکومت اور اخبارات بیف ٹرسٹ کے خلاف ہی کیوں بولتے ہیں ؟ “ جب اس کا سامع اس سوال کے جواب میں کہتا کہ تیل ٹرسٹ کے خلاف بھی کافی شور ہے تو اس کے جواب میں آدم کہتا، ” 10 سال پہلے ہنری ڈی لائیڈ نے سٹینڈرڈ آئل کمپنی کے خلاف ساری حقیقت اپنی کتاب ’ ویلتھ ورسز کامن ویلتھ (Wealth versus Commonwealth’)میں لکھی تھی۔ اس کتاب کو دبادیا گیا۔ تم نے شاید ہی اس کا ذکر سنا ہو۔ اب دو رسالے والوں نے ہمت کی ہے اور ’سٹینڈرڈ آئل‘ کے موضوع کو پھر چھیڑا ہے، تو ہوا کیا ؟ اخبارات نے مصنفین کا تمسخر اڑایا، گرجا گھروں نے مجرموں کا دفاع کیا اور گورنمنٹ۔۔۔ گورنمنٹ نے کچھ نہیں کیا۔ ےو ں گورنمنٹ میں اور اس بیف ٹرسٹ میں کیا فرق ہوا ؟ “
یہاں آکر سوال کرنے والا عموماً ہار مان لیتا اور ٹامی اسے سمجھاتا کہ ” اگر تم سوشلسٹ ہوتے تو تمھیں پتا ہوتا کہ آج امریکا پر جس طاقت کی حکومت ہے وہ دراصل ریل روڈ ٹرسٹ ہے۔ تمھارے ملک کی ریاستی حکومت کو ریل روڈ ٹرسٹ چلا تا ہے۔ یہی امریکی سینٹ کو چلاتا ہے۔ میرے بھائی سارے ٹرسٹ جن کے نام میں نے لیے ہیں، ریل روڈ ٹرسٹ جیسے ہی ہیں، سوائے بیف ٹرسٹ کے۔۔۔ بیف ٹرسٹ نے ریل روڈ ٹرسٹ کا مقابلہ کیا ہے۔ وہ پرائیویٹ گاڑیوں کے ذریعے انھیں لوٹ رہا ہے۔ اسی لیے لوگ غصے میں آرہے ہیں، اخبارات سخت اقدام کے لیے شور مچا رہے ہیں اور حکومت ان سے جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تم جیسے غریب لوگ دیکھ دیکھ کر تالیاں پیٹ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب تمھاری خاطر ہورہا ہے۔ تم یہ سمجھنے سے قاصر ہو کہ یہ ایک صدی سے جاری کاروباری مقابلے کی جنگ کا نقطۂ عروج ہے۔۔۔ بیف ٹرسٹ اور ریل روڈ ٹرسٹ کے قبائلی سرداروں کے درمیان آخری معرکہ جس کا انعام امریکا کی ملکیت اور حاکمیت ہے!“ ( جاری ہے ) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -