ڈرگ روڈ اورگورا قبرستان

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:12
میرے بچپن کا آغاز گھر کے سامنے والے اسی میدان سے ہوا جس کا ذکر میں نے جلد بازی اور شوخے پن میں پہلے ہی کر دیا تھا ۔اس میدان کے ایک طرف ہمارا گھر اور دوسری طرف جھگیاں تھیں ، قریب ہی دو لمبی سی ساتھ ساتھ بنی ہوئی فوجی بارکوں میں دو پرائمری اسکول قائم کردیئے گئے تھے۔ ایک لڑکوں کے لیے اور دوسرا لڑکیوں کا تھا۔مجھے بھی اسی اسکول میں داخل کروا دیا گیا تھا ۔اس اسکول کے بارے میں اور اپنے ذاتی حالات کو میں نے اپنی آپ بیتی ”اچھی گزر گئی “ میں بڑی تفصیل سے بیان کر دیا ہے ۔ اس لیے ان کو دوہرانے کے بجائے میں صرف کراچی کے عمومی ماحول کا تذکرہ ہی کروں گا ۔
کراچی اس وقت ایک چھوٹا سا شہر تھا ، جس کی آبادی تقسیم ہند کے وقت بمشکل کوئی چار لاکھ تھی ۔ دونوں طرف سے ہجرت کا عمل شروع ہوا اور لوگ ادھر اُدھر ہونے لگے ، کچھ عرصے بعد جب اس اتھل پتھل کی دھول بیٹھی تو یہ عقدہ کھلا کہ ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کی تعداد وہاں جانے والوں سے کہیں زیادہ تھی۔ اس لیے سن پچاس کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ہی کراچی کی آبادی آٹھ لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔شہر بھی کوئی اتنا پھیلا ہوا نہ تھا ۔ ریلوے لائن کے ساتھ سا تھ چلتے جائیں تو اصلی شہری حدود چنیسرہالٹ سے شروع ہوتی تھی اور کیماڑی تک چلی جاتی تھی۔ دوسری طرف یہ ریلوے لائن کے اس پار سے شروع ہو کر گٹر باغیچہ اور لیاری ندی پر اختتام پذیر ہو جاتا تھا۔ان کے اندر جو کچھ بھی تھا، بس وہی اس وقت کا کراچی شہر تھا۔
ہمارا گھر چونکہ کراچی کے عین مرکزمیں اور ڈرگ روڈ کے پہلو میں ہی واقع تھا، اِس لیے کراچی کی سیر و سیاحت اور شہر میں نقل و حرکت کے لیے ہم اسی مقام کو اپنا بنیادی پڑاﺅ بنائیں گے اور یہیں سے ادھر اُدھر ہو جایا کریں گے کیونکہ یہاں سے ہر قسم کی سواری بھی مل جاتی ہے اور پیدل رستے بھی چاروں طرف نکلتے ہیں۔
آج ہم کراچی کی سیر و سیاحت کا آغاز ڈرگ روڈ سے کریں گے جو اس وقت کی ایک اہم شارع تھی اوریہ دور کہیںایئرپورٹ کی طرف سے چل کر آتی تھی اور کراچی کے وسط تک آن پہنچتی تھی۔
گورا قبرستان
اگر ڈرگ روڈ پر شمال مشرق کی طرف چلتے ہوئے شہر سے باہر نکلیں تو گورا قبرستان اس وقت کراچی شہر کی اختتامی حدودمیں آتا تھا ۔یہ قبرستان اپنے وقتوں میں شہر سے باہر بنایا گیا ہو گا اورمسیحی راواےات کے مطابق یقینا خوبصورت بھی ہو گا ۔ لیکن اب تو یہ ایک اجاڑ سا مگر قدرے صاف ستھرا قبرستان نظر آتا تھا ۔مرکزی دروازے پر وکٹورین طرز کا ایک چھوٹا سا ڈھلوان کمرہ بنا ہوا تھا جس کی چھت کے دونوں سروں پر بڑی بڑی صلیبیں نصب تھیں ۔ اس محرابی عمارت میںایک جنگلے والا دروازہ لگا ہوا تھا، جو اکثر کھلا ہی رہتا تھا ۔ قبرستان خواہ کسی بھی قوم یا مذہب کا ہو، اس کا احترام کیا جاتا تھا ۔ داخلے پر کوئی خاص پابندی بھی نہیں تھی ، جس کا دل چاہتا دروازہ کھول کر اندر چلا جاتا۔ یہاں بعض قبریں تو بڑی خوبصورت تھیں جن پر ےسوع مسیحؑ اور حضرت بی بی مریم ؑکے علاوہ مرنے والے کے لیے بین کرتے ہوئے فرشتوں کے مجسمے بنے ہوئے تھے ، اور آنجہانی کے بارے میں انگریزی زبان میں بڑا کچھ لکھا ہوتا تھا جو اس وقت تو اپنی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ خاصا بڑا قبرستان تھا جس میں کچھ قبریں غیر ملکیوں خصوصاً برطانوی اور پرتگیزی باشندوں کی بھی تھیں ۔ چونکہ کراچی کے مقامی مسیحی اور غیر ملکی عیسائیوں کے نام ملتے جلتے تھے اس لیے قبروں سے ان کی قومیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا ۔
یہ قبرستان ہمارے گھر سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا اس لیے اکثر ہم اس کے سامنے واقع ایک وسیع گراﺅنڈ میں اپنے فٹ بال کے میچ کھیلنے جاتے تھے ۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہمیں کسی کی تدفین کا عمل بھی دیکھنے کا اتفاق ہو جاتا تھا ۔ جب کوئی میت وہاں آتی توہم میچ بیچ میں ہی چھوڑ چھاڑ کر قبرستان کی چھوٹی سی چار دیواری پر چڑھ کر بیٹھ جاتے اور آخری وقت تک وہاں موجود رہتے تھے ۔
ہوتا کچھ یوں تھا کہ جنازے کا تابوت سیاہ رنگ کی گھوڑاگاڑی یا خصوصی ویگن میں آتا تھا ، جس کو قبر کے قریب رکھ کر پادری دعائیہ کلمات پڑھتا تھا ۔ جنازے میں آئے ہوئے زیادہ تر مرد اور خواتین سیاہ سوٹ میں ملبوس ہوتے تھے۔ خواتین نے چہرے پر سیاہ رنگ کے باریک نقاب اوڑھے ہوتے تھے اور وہ سب تدفین مکمل ہونے تک وہاں رکتے ۔ مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد تابوت کو رسوں کی مدد سے قبر میں اتار دیا جاتا تھا۔ سب مل کر اس پر تھوڑی تھوڑی مٹی ڈالتے ، باقی کا کام پیشہ ور گورکن کرتے تھے اور یوں سوگوار قافلہ واپس چلا جاتا تھا۔ پنجاب کی طرف سے آنے والے مسیحی اپنی غربت کے باعث اپنے پیاروں کی قبریں سادہ اور نیم پختہ ہی رکھتے تھے جو دور سے ہی پہچانی جاتی تھیں ۔ ( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )