برٹرینڈرسل کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کا زبردست حامی تھا، پنڈت نہرو کے کشمیر کے مسئلے پر دھاندلی کے مؤقف کی مذمت بھی کی

برٹرینڈرسل کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کا زبردست حامی تھا، پنڈت نہرو کے ...
برٹرینڈرسل کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کا زبردست حامی تھا، پنڈت نہرو کے کشمیر کے مسئلے پر دھاندلی کے مؤقف کی مذمت بھی کی

  

تحریر: ظفر سپل

قسط:116

1950ءمیں اسے ”آرڈر آف میرٹ“(Order of Merit) سے نوازا گیا۔ انہی دنوں اس نے خطبات دینے کے لئے آسٹریلیا کا طوفانی دورہ کیا۔ یہاں اس کا شاندار استقبال کیا گیا۔ چین کی طرح آسٹریلیا نے بھی اسے خاصا متاثر کیا۔ اس نے کہا ”اگر مجھے دوبارہ پیدا ہونے کا موقع ملے، تو میں مغربی یورپ کی بجائے آسٹریلیا میں جنم لینا زیادہ پسند کروں گا“۔ آسٹریلیا سے واپسی کے بعد اس نے ایک بار پھر یہ کہہ کر امریکہ کی راہ لی کہ ”انسان کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے۔ 1950ءمیں اسے ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ چند ماہ بعد جب اسے کولمبیا یورنیورسٹی کی طرف سے خطبات کی دعوت دی گئی تو سارا شہر اس کے سواگت کو گھروں سے نکل آیا۔ چند ہی سالوں بعد یہ عظیم تغیر اس کے لئے نہایت خوش آئند تھا۔ 1948ءمیں اس نے اپنی تیسری بیوی پیٹریشیا سے بھی علیٰحدگی اختیار کر لی تھی۔ 15دسمبر1952ءمیں اس نے80 برس کی عمر میں،پیٹریشیا کو باقاعدہ طلاق دینے کے بعد، ایک نامور مصنفہ ایڈتھ فنچ (Edith Finch) سے چوتھی شادی کر لی۔ وہ ایک دوسرے کو 1925ءسے جانتے تھے۔ ایڈتھ رسل کی موت تک اس کی بیوی رہی۔

آخری عمر میں اس نے یہ کہہ کر افسانہ نگاری کا مشغلہ اختیار کر لیا کہ ”میں نے زندگی کے پہلے 80 سال فلسفے کے لیے وقف کئے تھے، اب میں آئندہ 80 سال فکشن کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں“۔ اس کے 2 افسانوی مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ان دنوں اس کا ایک اور مشغلہ جاسوسی ناولوں کا مطالعہ بھی تھا۔ وہ کہتا تھا ”جو لوگ جنگ پسند نہیں ہیں، انہیں وحشی نسلوں سے ودیعت شدہ جبلتوں کی تسکین کے لیے بے ضرر راہیں تلاش کرنا چاہئیں“۔

80 برس کے بعد رسل کی زندگی۔ ہاں، 80 برس کے بعد کے رسل کی زندگی جنگ، ظلم اور ناانصافی اور ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف جدوجہد میں بسر ہوئی۔ اسے جولائی 1955ءمیں تحفیف اسلحہ کے مسئلے پر جنیوا سربراہ کانفرنس سے پرامن مستقبل کی کرن نظر آنے لگی تھی۔ لیکن جب روس نے ایٹمی ہتھیاروں پر بین الاقوامی کنٹرول کے بارے میں امریکی تجاویز مسترد کر دیں تو بوڑھا امن پسند فلسفی مایوس ہوا ”مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بالآخر فتح امریکہ کی ہو گی۔۔۔۔ اشتمالیت کو فنا کرکے عالمی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنا ضروری ہے“ ریڈیو ماسکو نے اسے ”بھیڑئیے کا واویلا“ قرار دیا۔ تاہم جونہی کیوبا کے مسئلے پر روس اور امریکہ میں تصادم کا خطرہ پیدا ہوا، ہمارا فلسفی فوراً بائیں بازو کی جانب جھک گیا۔ اس نے امریکی حکمرانوں کو ”ہٹلر سے بدتر“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”تم (امریکی حکمران) اس لیے مرنے مارنے پر تل چکے ہو کہ امریکی سرمایہ داروں کو کیوبا کی عوامی حکومت پسند نہیں“ ۔ دراصل رسل کی وفاداریوں اور اس طرح کے سیاسی خیالات میں کوئی اصولی تضاد اس لیے نہیں کہ وہ ہر صورت بنی نوعِ انسان کو ایٹمی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کی خواہش رکھتا تھا۔

ستمبر1961ءمیں 89برس کی عمر میں لندن کی سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے اسے اس وقت7 دنوں کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ جب وہ ایک ”اینٹی نیوکلیئر مظاہرے“ میں شرکت کر رہا تھا۔ مجسٹریٹ نے اسے پیشکش کی کہ اگر وہ ”اچھے اخلاق“(Good Behaviour) کا مظاہرہ کرے تو جیل کی سزا معاف ہو سکتی ہے۔ مگر اس نے کہا ”نہیں، میں ایسا نہیں کروں گا“۔

رسل کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کا بھی زبردست حامی تھا۔ اس نے پنڈت نہرو کے کشمیر کے مسئلے پر دھاندلی کے مؤقف کی مذمت کی اور وہ بارہا بھارت کے سامراجی عزائم کے خلاف بولا۔ اس نے کہا ”بھارتی حکومت بین الاقوامی معاملات میں بلند نظری کی پرچارک ہے۔ لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ اپنی اس بلند نظری کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں خاک میں ملا دیا ہے تو دل پر ایک احساسِ نامرادی چھا جاتا ہے“۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں اس نے بھارتی حملے کو ”ننگی جارحیت“ قرار دیا۔ رسل کو پاکستان اور اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے بھی محبت تھی۔ اس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا: ”میں عرصے سے حکومتِ پاکستان کی پالیسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں، کیونکہ یہ ایک آزاد پالیسی ہے“۔

سیاہ رخ امریکہ نے 1957ءسے ویت نام میں خونخوار استعمار کی جگہ لے رکھی تھی اور اس کی 5 لاکھ افواج ویت نامی عوام کی جدوجہدِ آزادی کو کچلنے میں مصروف تھیں۔ ایک اطلاع کے مطابق 1962ءکے وسط تک1 لاکھ 16 ہزار افراد ہلاک، 7 لاکھ زخمی اور اپاہج اور 4 لاکھ افراد قید ہوئے۔31 ہزار خواتین سے زناءبالجبر کیا گیا۔

1965ءکے بعد ویت نام کا مسئلہ رسل کی توجہ کا سب سے زیادہ مرکز بنا۔ یہ معاملہ سیاہ رخ امریکہ کی درندگی اور بربریت کی شرمناک مثال ہے۔ 94 سالہ زرد رو بوڑھا فلسفی اپنے وطن سے ہزاروں میل دور اس ظلم و تشدد کے خلاف آہنی دیوار بن کر ڈٹ گیا۔ اس نے ویت نام کے قومی محاذ آزادی کے ریڈیو سے ویت نام میں لڑنے والے امریکی فوجیوں سے مخاطب ہو کر کہا:

”اگر یہ سب کچھ امریکہ میں آپ کے والدین، بیویوں اور بچوں کے ساتھ ہوتا، تو آپ کیا محسوس کرتے؟ میں یہ سوال آپ سے اس لیے پوچھتا ہوں کیونکہ اس کی ذمہ داری آپ پر ہے ،اس بات کا فیصلہ بھی آپ نے کرنا ہے کہ یہ مجرمانہ جنگ جاری رہے گی یا نہیں“(جاری ہے )

نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -