قومی فریضہ ادا کریں 

قومی فریضہ ادا کریں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج 8 فروری کوملک بھر میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور عام تعطیل ہے، انتخابی عمل کو پرامن بنانے کے لیے وفاقی دارالحکومت سمیت تمام صوبوں میں فوج اور رینجرز کے دستے تعینات کر دیئے گئے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، کل بھی پشین اور قلعہ سیف اللہ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کے انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے، جن میں ان سطور کی تحریر تک 26افراد جاں بحق ہو چکے تھے جبکہ درجنوں زخمی تھے۔ چیف الیکشن کمشنر نے تمام چیف سیکرٹری اور آئی جی صاحبان کو فون کال کے ذریعے سیکیورٹی سخت کرنے کی ہدایات دیں جبکہ نگران وزیراطلاعات بلوچستان نے کہا کہ دہشت گردی کی اِن کارروائیوں کے باوجود صوبے میں انتخابات ہوں گے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک بھر میں 90 ہزار 675 پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں سے 16 ہزار 766 پولنگ سٹیشن انتہائی حساس قرار دیے گئے ہیں، پنجاب میں 5 ہزار 624، سندھ میں 4 ہزار 430،خیبرپختونخوا میں 4 ہزار 265 اور بلوچستان میں 1047 پولنگ اسٹیشنز پر سکیورٹی خدشات موجود ہیں۔اِسی لئے پولیس کی پشت پر فوج اور رینجرز کے دستے بطور ریپڈ رسپانس فورس موجود ہیں تاکہ صورتحال قابو میں رہے۔ پولنگ صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک جاری رہے گی اور کسی قسم کا کوئی وقفہ نہیں کیا جائے گا۔الیکشن کمیشن نتائج ترتیب دینے کے لئے جدید الیکشن مینجمنٹ سسٹم (ای ایم ایس) کا استعمال کرے گا، یہ جدید سافٹ ویئر 32 کروڑ کی لاگت سے نجی کمپنی سے تیار کرایا گیا ہے جو کہ انٹرنیٹ کی بجائے ”انٹرا نیٹ“ کے ذریعے کام کرے گا۔ 2018ء میں نتائج مرتب کرنے کے لئے بنائے گئے آر ٹی ایس سسٹم نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا جس کی وجہ سے  نتائج سامنے آنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی تھی، اِسی لئے اِس مرتبہ اِس طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ضابطہ اخلاق کی شق نمبر 48اور 49کے مطابق انتخابات کے دن پولنگ سٹیشن کے400میٹر کی حدود میں کسی قسم کی مہم، ووٹرز کو ووٹ کے لئے قائل کرنے، ووٹر سے ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کی التجاء کرنے اور کسی خاص امیدوار کے لئے مہم چلانے پر پابندی ہے، اِسی طرح 100میٹر کے اندر کسی خاص امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے ووٹرز کی حوصلہ افزائی یا اُس کو ووٹ نہ ڈالنے کیلئے حوصلہ شکنی پر مشتمل نوٹس، علامات، بینرز یا جھنڈے لگانے پر بھی مکمل طور پر پابندی ہے۔ الیکشن کمیشن نے میڈیا کیلئے جاری کئے جانے والے ضابطہ اخلاق پر پابندی سے متعلق چیئرمین پیمرا کو مراسلہ بھیج دیاہے اور تاکید کی ہے کہ پیمرا الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔پاکستان کے نظریہ، خودمختاری اور سلامتی،عدلیہ کی آزادی،قومی اداروں اور قومی یکجہتی کے خلاف کسی قسم کا مواد نشر نہ کیا جائے۔الیکشن کے دن پرنٹ، الیکٹرانک یا ڈیجیٹل میڈیا پر انتخابات سے متعلق پولنگ سٹیشنوں پر کسی قسم کا سروے نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی قسم کی فیک نیوز نشر ہو۔غیر حتمی غیر سرکاری نتائج پولنگ ختم ہونے کے ایک گھنٹے بعد نشر کیے جاسکتے ہیں،میڈیا انتخابی عمل میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ 

اِن انتخابات میں قومی اسمبلی کی 266 نشستیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593 حلقے ہیں، 2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272 تھیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستیں 577 تھیں۔خواتین کی 60اور اقلیتوں کی 10 مخصوص نشستیں ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی نشستیں 342سے کم ہو کر 336 رہ گئی ہیں کیونکہ25 ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا خیبرپختونخوا میں ضم ہو گیا ہے اور اُس کی 12 نشستیں کم ہو کر چھ رہ گئی ہیں اور اُنہیں بھی خیبر پختونخوا کے کوٹے میں شامل کر دیا گیا ہے۔یوں صوبے کا قومی اسمبلی کا کوٹہ تو 39 نشستوں سے بڑھ کر 45 تک پہنچ گیا لیکن قومی اسمبلی کی مجموعی نشستیں کم ہو گئیں۔قومی اسمبلی میں اب سادہ اکثریت حاصل کرنے اور وفاق میں حکومت بنانے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کو 169 سیٹیں درکار ہوں گی۔

اِس وقت ملک میں 12کروڑ 69لاکھ 80ہزار 272 رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141 اور پنجاب اسمبلی کی 297 نشستیں ہیں جبکہ رجسٹرڈ ووٹرسات کروڑ 32 لاکھ سات ہزار 896 ہیں۔ سندھ میں قومی اسمبلی کی 61 اور سندھ اسمبلی کی 130 نشستیں ہیں جبکہ دو کروڑ 69 لاکھ 94 ہزار 769 ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں گے۔خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45 اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی 115 نشستیں ہیں جبکہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد دو کروڑ 19 لاکھ 28 ہزار 119 ہے۔ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 اور بلوچستان اسمبلی کی 51 نشستیں ہیں جبکہ 53 لاکھ 71 ہزار 947 ووٹرز انتخابی عمل میں حصہ لیں گے۔

واضح رہے کہ آخری عام انتخابات 2018ء میں ہوئے تھے جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اقتدار میں آئی، 13 اگست 2018ء کو اسمبلیوں کی تشکیل ہوئی اور مقررہ مدت 12 اگست 2023ء کو ختم ہونا تھی تاہم اپنی مقررہ مدت پوری نہ کر سکی کیونکہ اپریل 2021ء میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی، اُنہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔اُنہوں نے اِس کے بعد قومی اسمبلی سے استعفے دے کر بھی منہ موڑ لیا اور احتجاج کا راستہ اپنا لیا۔ پی ڈی ایم کی حکومت بن گئی، شہباز شریف نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا، حالات بہت موافق تو نہ تھے لیکن پھر بھی وہ ڈٹے رہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مقررہ مدت سے دو روز قبل نو اگست 2023ء کو اسمبلی تحلیل کر دی تھی جس کے بعد سے اب تک ملک میں نگران حکومت کام کر رہی ہے۔پنجاب اور خیبر پختوا میں اسمبیلیاں جنوری میں ہی تحلیل کر دی گئی تھیں۔آئین کے مطابق تو عام انتخابات اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے اندر ہونا طے ہیں لیکن سابق حکومت کی جانب سے مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کا انعقاد التواء کا شکار ہوا۔انتخابات کے ہونے نہ ہونے پر بحث مباحثہ ہوتا رہا، شک و شبہات کے سائے بھی منڈلاتے رہے، پھر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر کی مشاورت کے ساتھ انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا حکم دیا، آٹھ فروری پر اتفاق رائے ہوا تو سپریم کورٹ نے اِسے پتھر پر لکیر قرار دے دیا۔انتخابات کی تاریخ آنے کے بعد بہت سے حلقوں کو لگتا تھا کہ شاید یہ مقررہ تاریخ پر نہ ہوں، بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ یہ ملتوی ہو جائیں، کبھی سرد موسم کا بہانہ تو کبھی سکیورٹی کے خدشات لیکن پھر بھی عدلیہ اور پاک فوج سمیت تمام ادارے مقررہ تاریخ پر انتخابات کرانے کے لئے ڈٹے رہے۔سیاسی منظر نامہ بدلتا رہا، جناب میاں نواز شریف ملک واپس آ گئے، عمران خان صاحب جیل چلے گئے اور اُنہیں تین مقدمات میں سزا بھی ہو گئی، تاحیات نااہل ہو گئے، اُن کی جماعت کو قانونی میدان میں ایک بڑی شکست ہوئی اور وہ انتخابی نشان سے محروم ہو گئی۔پی ٹی آئی کے امیدوار اب آزاد حیثیت میں انتخابی عمل کا حصہ ہیں۔بہر حال تمام تر اتار چڑھاؤ، الزامات اور شکایتوں کے باوجود آج کا دن آ گیا ہے، جمہوری عمل آگے بڑھ رہا ہے۔اب بھی اِن انتخابات پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے، دھاندلی اور سلیکشن کے نعرے بلند کئے جا رہے ہیں،ووٹروں کا حوصلہ توڑنے اور نظام پر اُن کا اعتماد ڈگمگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آج ہر ووٹر پر لازم ہے کہ وہ گھر سے نکلے، پوری دیانتداری سے اپنا ووٹ استعمال کرے، کسی کی بات پر کان دھرے بغیر اپنا حقِ رائے دہی کا استعمال کرکے قومی فریضہ ادا کرے۔ نظام کو کمزور نہیں بلکہ اسے مضبوط بنانے کے لئے جنگ لڑیں، اپنا کردار ضرور ادا کریں، یاد رہے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دینے والے شکایت کا حق بھی کھو دیتے ہیں۔

مزید :

رائے -اداریہ -