سیاست دان اور عوام
الیکشن کی گہما گہمی ہے ہر امیدوار اپنی کمپین میں مصروف ہے، کہیں 200 یونٹ بجلی فری کے نعرے لگ رہے ہیں تو کہیں تین سو یونٹ فری کے وعدے کیے جا رہے ہیں اور یہ وہی جماعتیں اور لیڈر کر رہے ہیں جو برسوں سے اس ملک پر حکومت کرتے آ رہے ہیں، ووٹر و ورکر جنون کی حد تک نعرہ مستانہ لگائے ہوئے ہیں اور خوب محنت ہورہی ہے اور یہ محنت و محبت اس قدر ہوتی ہے کہ عموماً یہ رویہ دیکھنے کو ملا ہے کہ ورکر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو رہے ہوتے ہیں حالانکہ جن سیاست دانوں کی خاطر وہ ایک دوسرے کے گریبان چاک کررہے ہوتے ہیں وہ آپس میں ہنس کھیل اور خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو اس ساری صورتحال میں عوام کو کیا ملنا ہے یہ آپ اور میں بخوبی جانتے ہیں وہی برسوں پرانے وعدے اور ببانگ دہل کیے جانے والے دعوے،پانچ سال بعد الیکشن آتا ہے اور یہی صورت حال ہوتی ہے انہی تباہ حال گلیوں، تعفن زدہ سیوریج سے گزرتے ہیں، سکول نہیں،کالج نہیں یعنی بنیادی تعلیم تک نہیں میسر نہیں ہے، ہسپتالوں میں تھرمامیٹر تک نہیں، بنیادی میڈیسن تک نہیں، ایمبولینس سروس تک میسر نہیں، صحت کے حوالے دیکھا جائے تو پسماندگی، سڑکوں کے حوالے سے دیکھا جائے وہی 30 سالہ پرانی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں جہاں پر پیدل گزرنا بھی محال، تعفن زدہ سیوریج، بدبودار پانی، ہر طرف سے راستے بند یعنی یہ بنیادی سی سہولیات سے آج تک پنجاب کے اکثر علاقے محروم ہیں لیکن انہی سیاست دانوں کو پھر منتخب کرکے ہم اسمبلیوں میں بھیج دیتے ہیں جب سیاست دان الیکشن جیت کر جاتا ہے اور اسلام آباد و لاہور کے آرام دہ کمروں میں سو جاتا ہے اور ہم عوام پل پل پر ان کو بد دعائیں دیتے ہیں لیکن شاید وہ اثر نہیں رکھتیں اور ہم عزم مصمم کرتے ہیں اگلی مرتبہ آنے دو ہم دیکھ لیں گے یہی حال برسوں سے چلا آرہا ہے اور ہر علاقے کی یہی درد بھری کہانی ہے۔
دراصل سیاست دان سے قبل ہم خود مجرم ہیں جو چند ہزار یا کسی چوہدری و نمبردار کے کہنے پر ان کو منتخب کرکے بھیجتے ہیں پھر ہم رونا روتے ہیں کہ ہمارے کام نہیں ہوئے نہ تعلیم آ سکی نہ محکمہء صحت میں بہتری، وہی بدحالی و پسماندگی ہے تو آپ اور میں سوچیں جن چوہدریوں اور سرداروں کے پیچھے لگ کر ہم نے ووٹ دیے تھے، ظاہری بات ہے ان کے مفادات پورے ہوں گے ان کو ہی کام ملیں گے کیونکہ سیاست دان جانتا ہے پانچ سال بعد انہی چوہدریوں کو بھیجیں گے تو ہم نے پھر لبیک کہہ دینا ہے، آج سے سوچ بدلیں، اپنے ووٹ کی قدر خود کریں، اپنے ووٹ کو خود عزت دیں، آپ اپنی رائے کے اظہار میں اور ووٹ کے استحقاق میں یہ سوچیں کہ کون شہر کو سنوار سکتا ہے کون تعلیم لا سکتا ہے کون ترقیاتی و خوشحالی کے منصوبے لا سکتا ہے اگر چوہدریوں اورسرداروں و نمبرداروں کی بجائے خود ہم اپنے فیصلے کرنے لگ گئے تو ہماری اور ہمارے ووٹ کی عزت و قدر بھی ہوگی اور شہر کے شہر سنوریں گے اور جب اچھی قیادت میسر آئی تو اسمبلی سنورے گی پھر اسی سے ملک سنورے گا۔