جس روز8 آنے جیب میں ہوتے ہم خود کو امیر سمجھتے، کہتے ہیں پہلے پیار کی طرح پہلے کھانے کا ذائقہ بھی نہیں بھولتا،آ ج بھی دیر سے پہنچو تو حلیم نہیں ملتی

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:74
بیڈن پاول کی بوائے سکاؤٹ تحریک؛
آٹھویں جماعت میں بوائے سکاؤٹ تحریک کا حصہ بنا۔ یہ تحریک 1907ء میں ”بیڈن پاول“ نے ولایت سے شروع کی تھی۔ مقصد نوجوانوں کو منظم انداز میں مشکل حالات میں لوگوں کی مدد کے لئے تیار کر ناتھا۔ گرلز کی ایسی تحریک ”گرلز گائیڈ“ کہلاتی ہے۔ پاکستان میں ابتدائی لیول کا سکاؤٹ ”ٹینڈر“ سکاؤٹ کہلاتا جبکہ سب سے اونچا مقام”قائد اعظم سکاؤٹ“ کا تھا۔ صدر مملکت پاکستان کے چیف سکاؤٹ ہیں۔ مجھے 74 میں سکاؤٹ جمبوری مری میں شرکت کا موقع بھی ملا۔ سکاؤٹ جمہوری میں ملک کے طول و عرض سے آئے سکاؤٹ شامل ہوتے تھے اور مختلف قسم کی مشقوں اور چیلنجز سے نبٹنے کے مقابلے ہوتے جن میں سائیکل کے کرتب، رسوں اور بانسوں کی مدد سے پل بنانا، تقریری مقابلے، پریڈ اور ڈرم بجانا شامل تھے۔مشکل یا ایمرجینسی صورت حال میں میڈیکل فرسٹ ایڈ بہم پہنچانا اور زخمیوں کو محفوظ جگہ منتقل کرنا بھی اس تربیت کا حصہ تھے۔ میں نے فرسٹ ایڈ کی تربیت ایک ہفتہ تک جنرل ہسپتال لاہور سے حاصل کی تھی۔ آج بھی شاید ایسا ہی ہوتا ہو۔ مری جمبوری میں شرکت کے بعد میری اس تحریک سے دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔
نواب حلیم، چورن والا اور برگر؛
ہم نویں جماعت میں تھے جب سکول میں نواب نامی ایک شخص حلیم، چنے اور نان کا ٹھیہ لگانے لگا تھا۔8 آنے میں نان اور حلیم مل جاتی تھی۔ جس روز8 آنے جیب میں ہوتے ہم خود کو امیر سمجھتے تھے۔خرم کے پاس اکثر ایک روپیہ ہو تا اور ہم دونوں اس حلیم کا مزا لیتے تھے۔(بابر اور میرے مالی حالات ایک جیسے ہی تھے۔) سکول کے پرانے طالب علم آج بھی یہ چسکے دار حلیم کھانے نواب کی دوکان پر اکثر دکھائی دیتے ہیں اس کے علاوہ جن جن کو اس حلیم اور چنوں کا ذائقہ منہ کو لگ گیا ہے وہ کوئی اور حلیم پسند ہی نہیں کرتے۔آج بھی زبان کا ذائقہ بدلنا ہو تو میں اور خرم اے بلاک ماڈل ٹاؤن چلے آتے ہیں۔ سکول کے دنوں میں آدھی چھٹی کے وقت سارا سکول ہی اس ٹھیلے پر ٹوٹ پڑتا تھا اور دیر سے آنے والے خالی ہاتھ ہی لوٹتے تھے۔ آ ج بھی ایسا ہی ہے کہ دیر سے پہنچو تو حلیم نہیں ملتی۔ اب یہ حلیم سکول سے تو جا چکی ہے مگر ماڈل ٹاؤن اے بلاک مسجد مارکیٹ اوربسم اللہ چوک جوہر ٹاؤن میں دستیاب ہے۔ اس حلیم کا ذائقہ آج بھی ویسا ہے جیسا تقریباً 50 برس قبل تھا۔
ہاں وہ چورن والا بھی یاد آگیا جو نواب حلیم سے بھی پرانا تھا۔ وہ چورن کو کیسے آگ لگاتا تھا کچھ پتہ نہیں لیکن اس کے چورن کا جواب نہیں تھا۔ چورن کے ساتھ وہ کالے ابلے ہوئے چنے کھٹی میٹھی چٹنی یا املی میں ڈال کر دیتا تو کھانے کا مزا آ جاتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا ماڈل ٹاؤن کے سارے بچے میرے ہی چنے اور چورن کھا کر جوان ہوئے تھے۔ شام کو وہ گھر جاتے وقت میرے گھر کے آگے سے گزرتا تو اس کے چنے میری بہنیں بھی کھاتی تھیں۔ 4 آنے کے چنے۔ منہ میں اب بھی پانی آ گیا ہے۔ شادی کے بعد میری بیگم نے بھی اس کے چنے اور چورن کھایا تھا۔مدت ہوئی وہ دکھائی نہیں دیا۔ مجھے خرم سے پتہ چلا وہ فوت ہو گیا ہے اور اب یہی کام اس کا بیٹا کرتا ہے۔
اسی طرح کھانے کی ایک اور سوغات جس نے آج کی نئی نسل کو ”برگر بچے“ کا نام دیا وہ برگر کی آمد تھی۔لاہور میں میری یادداشت کے مطابق سب سے پہلے انڈے شامی والا برگر غالب مارکیٹ میں شروع ہوا۔ یہ غالباً 77/78 کی بات ہے۔ میں اور فیصل وحید ہفتے میں 2 بار ضرور کھانے جاتے۔ وہیں باہر بیٹھ کر گرم گرم برگر بہت سی چٹنی کے ساتھ کھاتے تھے۔ اب تو جدید زمانے کے جدید برگر موجود ہیں لیکن زبان کو جو ٹیسٹ نواب حلیم اور انڈا شامی برگر کا لگا ہے وہ آج بھی قائم ہے۔کہتے ہیں پہلے پیار کی طرح پہلے کھانے کا ذائقہ بھی نہیں بھولتا۔ میں تو اس بات کا قائل ہوں جناب۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔