بھارتی وزیر خارجہ کا تازہ بھاشن

بھارتی وزیر خارجہ کا تازہ بھاشن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کو ممبئی حملوں میں مطلوب افراد کی حوالگی سے مشروط کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے لئے اس بات کی اہمیت نہیں کہ پاکستانی وزیر داخلہ نے دورئہ بھارت کے دوران کتنا متنازعہ بیان دیا، بلکہ ہمارے لئے اس بات کی اہمیت ہے کہ پاکستان ممبئی حملوں کے ملزموں کی بھارت کو حوالگی کے ضمن میں کیا مو¿قف اختیار کرتا ہے۔ پاکستان، بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے تو اس سے جنوبی ایشیا کی معیشت میں بہتری آئے گی۔ امرتسر میں سیفما کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ کرکٹ پاکستان اور بھارت کو قریب لا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بات بھی دہرائی، جو اس سے پہلے بہت سے بھارتی لیڈر کرتے رہتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں تعلقات ایسے ہونے چاہئیں کہ ایشیا کا رہنے والا کوئی شخص دوران سفرایک ملک میں ناشتہ کر ے، تو دوپہر کا کھانا دوسرے ملک میں کھائے اور رات کا کھانا کسی تیسرے ملک میں۔
بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید جب سے اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں، پاکستان کو ”مکسڈ سگنل“ ہی دیتے چلے جا رہے ہیں۔ کبھی ان کا لہجہ پاکستان کے بارے میں جارحانہ ہوتا ہے تو کبھی وہ اچھے ہمسایوں والے بہتر تعلقات کی بات کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کی سوئی ابھی تک ممبئی واقعات سے ہلنے کو تیار نہیں، حالانکہ اس عرصے میں پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے تیز رفتاری کے ساتھ فاصلہ طے کیا ہے اور تجارت وغیرہ کے ضمن میں بھارت کو بعض ایسی رعایتیں بھی دی ہیں جس کا ماضی میں تصور بھی محال تھا۔ اسی طرح بھارت کو تجارت کے لئے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کا فیصلہ بھی ہو چُکا ہے جس پرعمل درآمد باقی ہے۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی دونوں ملکوں میں ایسی کشیدگی کی بنیاد رکھ دی گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی، یہاں تک کہ 1965ءمیں دونوں ملکوں میں ایک بھرپور جنگ بھی لڑی گئی، یہ جنگ معاہدہ تاشقند کے نتیجے پر ختم ہوئی، لیکن چھ ہی سال کے عرصے میں 1971ءمیں بھارت نے پاکستان کے داخلی بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا اور ہمارے ملک کے اس حصے کو طاقت کے زور سے علیحدہ کرکے بنگلہ دیش بنا دیا۔ اپنے ہاں ان لوگوں کو پناہ اور تربیت دی جو مشرقی پاکستان میں جنگجوانہ کارروائیاں کرتے تھے اپنے اس کارنامے پر اندرا گاندھی بہت فخر کیا کرتی تھیں۔ اس جنگ کے بعد بھی دونوں ملکوں کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا جس پر نیک نیتی سے عمل کیا جاتا تو تعلقات میں بہتری کا عمل تیز تر ہو سکتا تھا، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور تمام تر کوششوں کے باوجود متعدد بار مذاکرات کی گاڑی پٹڑی سے اترتی رہی، جسے بہت سی کوششوں سے دوبارہ پٹڑی پر چڑھایا جاتا رہا۔
 اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بھارت زعفرانی دہشت گردی میں خود کفیل ہے، لیکن جب کبھی اور جہاں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونماہوتا ہے۔ بھارت کی قیادت اوراس کا میڈیا کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اس کا الزام پاکستان پر جڑ دیتا ہے۔ یہاں تک کہ شروع شروع میں سمجھوتہ ایکسپریس میں آتشزدگی کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی، لیکن بعد میں ثابت ہوگیا کہ اس اندوہ ناک و اقعے میں بھارتی فوج کا ایک حاضر سروس افسر ملوث تھا۔ ایسے ہی واقعات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر ہمیشہ شکوک و شبہات کے سائے پڑتے رہے۔ اب چند برس سے تعلقات کی بہتری میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ویزوں کے اجراءکے سلسلے میں کچھ آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا ہے، بلکہ طویل عرصے کے بعد دونوں ملکوں نے کرکٹ بھی کھیلنا شروع کر دی ہے۔ تجارت کے سلسلے میں بھی کچھ آسانیاں پیدا ہوئی ہیں ان حالات میں ضرورت تو اس امر کی ہے کہ تعلقات کو مزید بہتر بنایا جائے۔ شکوک و شبہات کی فضا ختم کی جائے اور دونوں ملک اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں اور دونوں ملک جنگی سازو سامان کی خریداری پر جو بھاری اخراجات کر رہے ہیں اس میں کچھ کمی کر کے اپنے عوام کی حالت پر توجہ دیں، لیکن بھارت جدید اسلحہ جمع کرنے کے جنون میں مبتلا ہے اور اسلحے کی خریداری کے بھاری آرڈر دئیے جا رہے ہیں، حالانکہ یہی اربوں ڈالر اگر بھارت میں غریبوں کی حالت سدھارنے پر صرف کئے جائیں تو ممبئی کے ان لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں بھی بہتری آ سکتی ہے جو اپنی پوری زندگی سڑکوں پر گزار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد ممبئی کی آبادی کا تیس سے چالیس فیصد ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں غربت کے ایسے الم ناک مناظر نہیں دیکھے جاسکتے جو ممبئی میں عام ہیں۔ پاکستان، بھارت کی نسبت چھوٹا ملک ہے، لیکن بھارت کی اسلحہ جمع کرنے کی ہوس نے پاکستان کو بھی اپنی حفاظت کے لئے انتظامات کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بھارت جیسا جنگ پسند ہمسایہ اگر پاکستان کی سرحدوں پر نہ ہوتا تو پاکستان کے عوام کی حالت بھی بہتر ہوتی، کیونکہ پاکستان کے بانی لیڈروں کی تو خواہش تھی کہ دونوں ملکوں میں ایسے خوشگوار تعلقات ہونے چاہئیں جو امریکہ اور کینیڈا میں ہیں۔ لیکن یہ خواہش پوری نہ ہو سکی بھارت کے انتہا پسند تو دونوں ملکوں میں کرکٹ کی بحالی کو بھی پسند نہیں کرتے اور اس کی راہ روکنے کے لئے اعلانات کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر سلمان خورشید ممبئی کے واقعات کا یرغمالی بنے رہیں تو پھر یہ خواہش کیسے پوری ہوگی کہ ایک سیاح ناشتہ ایک ملک میں کرے، دوپہر کا کھانا دوسرے ملک میں کھائے اور رات کا کھانا تیسرے ملک میں کھائے۔ اس کے لئے تو دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ ماضی کے واقعات کا یرغمالی بن کر تو امن کا کٹھن سفر طے نہیں ہو سکتا۔ اس لئے بھارتی وزیر خارجہ اپنی اداو¿ں پر غور کریں اور ممبئی سے آگے بڑھیں۔

مزید :

اداریہ -