خصوصی فوجی عدالتوں کابروقت قیام
3 جنوری کووطن عزیز کی قومی اسمبلی میں ایک تاریخی واقعہ یوں رونما ہوا کہ 45 برس پہلے ایک ملٹری کورٹ سے سزا پانے والے سیاسی کارکن ،پرویز رشید نے وفاقی وزیر کی حیثیت سے خصوصی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بل پیش کیے۔ جواب قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں نے منظور کر لئے ہیں، آئین میں 21 ویں ترمیم کے تحت آرمی ایکٹ کے ذریعے قائم ہونے والی عدالتوں کو آئینی تحفظ دیا جائے گا۔ آرمی ایکٹ 1952ء کی سیکشن 2 میں سب سیکشن شامل کی جائے گی۔ اس کے تحت دہشت گرد گروپ یا تنظیم سے تعلق کا دعویٰ، پاکستان کے خلاف جنگ، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ، کسی مذہب یا فرقہ کا نام استعمال کرنے اور اسلحہ اٹھانے والے کے خلاف کارروائی ہوگی۔ پیش کردہ بل کے اغراض و مقاصد میں کہا گیا کہ درپیش غیر معمولی صورتحال اور حالات کا تقاضا ہے کہ دہشت گردی، پاکستان سے بغاوت یا اس کے خلاف جنگ یا پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق کرنے والے اقدامات کے جرائم پر تیزی سے ٹرائل کئے جائیں۔ دہشت گردوں، شر پسندوں اور بیرونی امداد حاصل کرنے والے عناصر سے پاکستان کی یکجہتی کو خطرات سے دوچار کر رہے ہیں، لہذا آئین پاکستان میں ا یک مناسب ترمیم کی جائے۔ یہ بھی و اضح کیا گیا کہ یہ ترمیم منسوخ تصور ہوگی۔ 21 ویں ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 175 کی کلاز تھری میں نیا جملہ شامل کیا جائے گا۔ آئین کے فرسٹ شیڈول میں ترمیم کی جائے گی۔ ترمیم کے تحت آرمی ایکٹ کے تحت بننے والی عدالتوں کو آئینی تحفظ دیا جائے گا۔
قبل ازیں وزیراعظم نوازشریف نے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے آج ہم نے جرأت مندانہ فیصلے نہ کیے تو قوم کا ہاتھ ہمارے گریبان پر ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ وفاقی حکومت کرے گی۔ مذکورہ کانفرنس میں سیاسی قیادت نے خصوصی عدالتوں کو آئینی تحفظ دینے پر اتفاق رائے کیا تھا جس سے 24 دسمبر کو منعقدہونے والی اس کل جماعتی کانفرنس میں مشاہدہ کی گئی یگانگت اور ہم آہنگی کی یاد تازہ ہوگئی جب سیاسی قیادت نے سانحہ پشاور کے فوراً بعد خصوصی فوجی عدالتیں قائم کرنے کا اصولی طور پر فیصلہ کیا تھا۔ جمعہ کے روزمنعقد ہونے و الی اس کانفرنس کا ایک نمایاں پہلو یہ رہا کہ اس میں وطن عزیز کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ خصوصی عدالتیں فوج کی خواہش نہیں، غیر معمولی حالات کا تقاضا اور وقت کی ضرورت ہیں۔ صورتحال بہتر ہونے پر اصل نظام بحال ہو جائے گا۔ جنرل راحیل شریف نے کہا اے پی سی میں طے ہونے والے معاملات پر فوری عمل درآمد ہونا چاہیے قوم کے مستقبل کا انحصار آج کئے گئے فیصلوں پر ہے۔ توجہ عملدرآمد پر مرکوز رکھنا ہوگی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ فیصلہ کن موڑ پر آگئی ہے، بحیثیت ریاست اور قوم ہم شکست کا تصور بھی نہیں کر سکتے، ہم یہ جنگ ضرور جیتیں گے ۔ پہلی اے پی سی میں پیدا ہونے والی اتفاق رائے کی فضاء قائم رہنی چاہئے ہمیں بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی قیادت کی طرف سے جو حمایت اور حوصلہ افزائی فراہم کی گئی ہے وہ ہماری طاقت ہے۔ اس سے ایک روز پہلے جنرل راحیل شریف نے کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پوری قوم دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف جرأت مندانہ فیصلوں کے لئے سیاسی و عسکری قیادت کی طرف دیکھ رہی ہے۔
ہفتہ کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے دوٹوک انداز میں کہا کہ فوجی عدالتیں صرف دہشت گردوں کے مقدمات کی سماعت کریں گی۔ فوجی عدالتیں کینگرو کورٹس نہیں بلکہ یہ عدالتیں دہشت گردوں کو صفائی کا موقع فراہم کریں گی اور ضروری نہیں کہ فوجی عدالت میں جو گیا اسے سزا بھی ہوگی۔اسی طرح یہ عدالتیں سیاستدانوں، تاجروں اور میڈیا کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی۔ سیاسی قیادت پر فیصلے کیلئے عسکری قیادت کا کوئی دباؤ نہیں تھا، مدارس بارے غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے، نفرت انگیز مواد و تقریروں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ افغان مہاجرین کو کیمپوں میں محدود کریں گے، میڈیا کو دہشت گردوں کی مدح سرائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے، دہشت گردوں کے ہمدردوں، سرپرستوں انہیں مالی معاونت فراہم کرنے والوں اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ انٹیلی جنس کی بنیاد پر چار سو سے زیادہ آپریشنز مکمل ہو چکے ہیں جن میں سو سے زیادہ دہشت گرد مار دیئے گئے ہیں جبکہ دو سو پچاس کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ قومی اتفاق رائے سے ایسے پائیدار اقدامات کئے جائیں گے جس سے دہشت گردی، انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا خاتمہ ہوگا، سیاسی اور عسکری قیادت نے جو فیصلے کئے ان پر پوری طرح عمل کیا جائے گا۔ ملٹری کورٹس قومی لائحہ عمل کا ایک حصہ ہیں، انہوں نے واضح کیا کہ عدالتی نظام اسی طرح کام کرتا رہے گا اور فوجی عدالتوں کا قیام عدالتی نظام پر عدم اعتماد نہیں ہے، فوجی عدالتوں میں صرف دہشت گردوں کا ٹرائل ہوگا اور یہ باقاعدہ قانون اور ضابطے کے تحت کام کریں گی، صرف ایسے دہشت گردوں کے ٹرائل ہوں گے جنہیں ہارڈ کور تصور کیا جاتا ہے جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں، جو خواتین، بچوں کو مارتے اور مسجدوں، سکولوں پر حملے کرتے ہیں ان کی وحشت کی تاریخ سیاہ باب ہے، ان کا مذہب ہے نہ کوئی قانون، ہم حالت جنگ میں ہیں اور اس سے نمٹنے کیلئے غیر معمولی اقدامات ضروری ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پشاور میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں جب فوجی عدالتوں کی تجویز سامنے آئی تو ابتداء میں پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی کے نمائندوں نے اس کی مخالفت کی لیکن بعد ازاں اپنی اعلیٰ قیادت سے مشاورت کے بعد انہوں نے اس تجویز کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ معلوم ہوا کہ پیپلزپارٹی کی طرف سے ر حمان ملک نے آصف زرداری سے بات کی، فاروق ستار نے الطاف حسین سے اور غلام بلور نے اسفند یار ولی سے ٹیلیفون پر بات کی۔ جب آصف زرداری نے اوکے کا سگنل دیا خورشید شاہ اور رحمان ملک نے شرکاء کو اپنے لیڈرکا فیصلہ سنا دیا۔اسی طرح الطاف حسین نے بھی تجویز کی حمایت کر دی جبکہ اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ اگر دیگر جماعتیں حمایت کر رہی ہیں تو پھر اے این پی بھی اس کی حامی ہے۔ عمران خان نے ملٹری کورٹس کے قیام کی تجویز کی بھرپور حمایت کی اور واضح انداز میں کہا کہ ہم اس معاملے میں حکومت کے ساتھ ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے د ہشت گردوں کا بھرپور مقابلہ ہوسکے۔کانفرنس کے بعض شرکاء کی طرف سے فوجی عدالتوں کے بارے جن تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا ان کا پس منظر اور سبب ماضی کے ایسے و اقعات تھے جب ایسی خصوصی عدالتوں کو سیاسی قیادت اور کارکنوں کے خلاف استعمال کیا گیا لیکن ان شرکاء نے اس وقت اطمینان کا سانس لیا جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ماضی کو چھوڑیں، آگے کی طرف بڑھیں، میں ذاتی ذمہ داری لیتا ہوں کہ ملٹری کورٹس کا غلط استعمال نہیں ہوگا۔
دریں اثناء لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ فوجی عدالتیں جمہوریت پر قدغن نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف سب ایک پیج پر ہیں اور غیر معمولی حالات میں غیر معمولی جنگ لڑ رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں مارشل لاء کی باتیں مناسب نہیں۔ وزیراعظم نے تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے فوجی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا اور فوجی عدالتیں سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی جیسا کہ ماضی میں فوجی عدالتیں سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے قائم کی جاتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی کا خاتمہ کرکے ہی دم لیں گے، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی جنگ لڑ رہے ہیں لہذا حالت جنگ کے فیصلے کرنے پڑیں گے۔
دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے اور دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اس میں بلاشبہ مذکورہ خصوصی فوجی عدالتوں کا قیام کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے جن تحفظات کا اظہار کیا گیا ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ حقیقت بہرحال مدنظر رہے کہ حالیہ فیصلہ ایک منتخب جمہوری حکومت کی چھتری کے تلے کیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے صورتحال یکسر مختلف رہی۔ عوام کو بجا طور پر توقع ہے کہ فوجی عدالتیں اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے باب میں ہی اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی۔ یہ فیصلہ بلاشبہ نہایت بروقت اور حقیقت پسندانہ ہے جس کے نتیجہ میں وطن عزیز میں امن کے قیام کے لئے کی جانے والی کوششوں کو مہمیز میسر آئے گی۔