مولانامحمد اسحاق بھٹی کی شخصیت کے چند پہلو
مذہبی انتہاپسندی اور عدم برداشت کی موجودہ فضانے سیاست، معیشت اور معاشرت کواپنی لپیٹ میں لے رکھاہے، ایسے حالات میں معتدل فکر،غیرجانبدار اورتعصب سے بالاترمحقق اورسکالرز کاوجود کسی معاشرے کے لئے نعمت سے کم نہیں ہوتا، رخصت ہوگئے وہ لوگ جورواداری کے بندھن میں بندھے ایک دوسرے کی امامت میں نمازیں پڑھ کر اپنے مریدوں کوپیغام اخوت وبرداشت دیاکرتے تھے۔ جن کامزاج کبھی فتو یانہ نہیں رہا،شائستگی جن کا شیوہ تھاباہمی احترام جن کا خاصہ تھا۔
علم وتحقیق کے میدان میں آزاد ،غیرجانب دار اور تعصب سے بالاترماحول کی بہت اہمیت ہوتی ہے کچھ ایسی ہی صفات کے مالک برصغیرپاک وہند کی ایک سو سے زائد مذہبی ،سیاسی ،صحافتی اور ادبی شخصیات کے سوانحی خاکے لکھنے والے عظیم مورخ،مصنف اور خاکہ نگار مولانامحمد اسحق بھٹی ہیں جنہیں ہم سے بچھڑے 2برس بیت گئے ۔
ادبی اور صحافتی حلقوں میں اسحاق بھٹی صاحب نے ایک منفرد خاکہ نگار کے طور پر شہرت حاصل کی ۔ ان کا قلم ہمیشہ بین المسالک قربتوں کے فروغ کے لئے چلتارہا۔
انہوں نے بلا امتیاز مسالک تقریبا تمام سیاسی و مذہبی اور ادبی شخصیات پرلکھا۔میانہ روی، رواداری ،تحمل مزاجی ،ایک دوسرے کوبرداشت کرنا، معاف کردینااور انصاف کرنایہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن کی فضاقائم کی جا سکتی ہے جومعاشرے ایسی خوبیوں کے افراد کے مالک ہوتے ہیں وہاں بے چینی ،شدت پسندی، جارحانہ پن ،غصہ ،تشددنہیں پیداہوتا۔
آج عدم برداشت کارحجان جس طرح بڑھ رہاہے ،اتنی ہی شدت سے مولانا محمد اسحق بھٹی ہمیں ہاد آرہے ہیں۔ اگرہم مسلکی قربتوں کی بات کریں تو مولانا داود غزنویؒ دیوبند کے اکابرمولانااحمدعلی لاہوریؒ کے مرکز شیرانوالہ میں اور مولانا لاہوری بھی غزنویوں کے مرکز مدرسہ تقویت الاسلام شیش محل روڈ میں نظرآتے ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے،اسی طرح مولانا عبدالستارنیازی مرحوم مسجد چینیانوالی میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کا خطبہ جمعہ سنتے نظرآتے۔
مولانابھٹی نے اپنی تصنیف نقوش عظمت رفتہ میں مولاناعبیداللہ سندھی ؒ مولانا احمد علی لاہوریؒ سید ابوالحسنات قادریؒ اور ڈاکٹرمحمد ایوب قادری ؒ کی شخصیات پر تعصب اور مسلکی بعد سے بالاترہوکرلکھا۔
بدقسمتی سے مذہبی طبقات کی اکثریت میں قوت برداشت ختم ہوچکی ہے اور رواداری جیسی صفت عنقاہوتی جارہی ہیں۔ایسے میں مولانااسحق بھٹی کی شخصیت اور ان کے رشحات فکر کامطالعہ آنے والی نسلوں کے لئے مینارہ نورکی حیثیت رکھتاہے۔
مولانااسحق بھٹی اردو کے معتبر مدون نقاد، خاکہ نگاراور تاریخ نویس تھے ۔ مولانامحمد اسحق بھٹی لفظوں کے ذریعہ شخصیت کی ایسی تصویرکشی کرتے کہ ان اس کا ظاہراورباطن قاری کے سامنے واضح ہوجاتا۔ وہ جیتی جاگتی حقیقی شخصیت کی دلکشی اور دلچسپی کی بہت اچھی تصویرکشی کرتے۔
وہ واقعات و مشاہدات کے ساتھ ساتھ اپنے تاثرات و قیاسات کوبھی شامل کرتے ۔ ان کی نگاہ وقیق اس مقام کوپالیتی جس مقام تک عام خاکہ نویسوں کی نگاہ نہیں پہنچتی اسی لیے کہاجاتاہے کہ ایک اچھا خاکہ ایک شخصیت کی دریافت ہوتاہے جسے اس دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کوچلتے پھرتے دیکھناہووہ آپ کے مضامین پڑھ لے ۔
یہ توصیفی الفاظ اردو ادب کے ممتاز ترین نقاد ،محقق شاعر اور مصنف جناب مشفق خواجہ کے ہیں ۔ خواجہ صاحب نے یہ تعریفی الفاظ جناب محمد اسحاق بھٹی کے لئے لکھے ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری مولانا بھٹی کی ایک شاہکار تصنیف نقوش عظمت رفتہ کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ یہ کتاب نہایت دلچسپ ،معلومات افزا اور فکر انگیز ہے۔
مصنف نے جن شخصیات پرقلم اٹھایاہے انہیں تاریخ مذہب، سیاست اور علم وتہذہب وادب کازندہ جاوید اور ناقابل فراموش حصہ بنا دیا ہے۔ وہ بات سے بات پیداکرتے اور مباحث کو پھیلاتے جاتے ہیں لیکن تحریر و نگارش کی رنگینی، بیان کی طوالت اور واقعات کی تفصیل کا احساس نہیں ہونے دیتی ۔
مولانابھٹی سادگی پسند،خوش ذوق اور زندہ دل انسان تھے۔ ان میں رعونت بالکل نہیں تھی ۔محفلوں میں ان کی وجہ سے زندگی اور رونق آجاتی ، ان کی گفتگو شائستہ، دلچسپ اور معلومات آفرین ہوتی ۔
اپنے لطیفوں اور مزاحیہ جملوں سے زندہ دلی کی کیفیت اور فضا پیدا کر دیتے۔ اسلوب قلم کارکے فن کی کسوٹی ہے۔ مصنف کی شخصیت اس کی خوبیاں خامیا ں ، اس کی پسند ناپسندساری چیزیں اس کے اسلوب میں کارفرمانظرآتی ہیں۔
یہ ممکن ہے ایک فنکاردوسرے فنکارکے اسلوب کی نقل کرلے لیکن اس کی روح کونہیں پا سکتا۔ مولانابھٹی مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا داود غزنوی سے بہت متاثرتھے اس لیے ان کی تحریروں میں ان آوازوں کی گونج سنائی دے گی ۔
ایک فرد مُطمئن کی طرح عاجزی اوربے نیازی کاعنصران میں غالب تھا انہوں نے اپنے عمومی ماحول سے بے نیاز ہوکر91 سال اپنے رشحات قلم کی عطربیزی سے طالبا ن علوم دینیہ اورمحبان اسلامی صحافت کی مشام روح کومعطرکئے رکھا۔
مولانانے اپنی شگفتہ تحریراور جادوبیانی سے اس فن کوتازگی اور اس فکرکوبالیدگی عطافرمائی ۔ شخصیت کی خلوت اورجلوت کی مثالوں سے لبریز اُن کے خاکوں کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے بڑے لوگوں کی عظمت کااعتراف کھلے دل سے کیاہے اور یہ خود ان کی عظمت کی دلیل ہے۔
مولانا اعتدال پسندتھے ۔ وہ خود کہاکرتے تھے کہ میری تربیت جن علمائے کرام میں ہوئی ہے ۔ ان میں سے کسی نے نہ الحادکی دکان لگائی ۔ نہ کفر کی تقسیم کے لئے کوشاں رہے ، نہ لوگوں کومشرک بنانے کادھندہ کیا، نہ کسی کوجنت سے نکالنے اور جہنم میں داخل کرنے کی کوشش کی۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمارے نوجوان ادیب اٹھیں اور اس عظیم علمی نقصان کی تلافی کریں۔
دولت، شہرت اور اقتدار کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہ تھی۔ انہوں نے حقیقت میں پرسکون اور بغیر کوئی بوجھ لیے مطمئن دل کے ساتھ اپنے پروردگار اور خالق حقیقی سے ملاقات کی ۔ ان کے متبسم چہرے کو دیکھ کرکوئی شخص بھی یہ اطمینان وسکون دیکھ سکتاتھا۔
نہ صرف ان کی ظاہری شخصیت ہی اس بات کی شاہدتھی ، بلکہ عملی طورپرانہو ں نے اسلام پیغمبراسلام ﷺاور اصحاب رسول کی حقانیت کے لئے جو کام کیااس سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ روز آخر ت میں ان کے لئے باعث اطمینان وراحت ہوگا۔
ان کی عبادت، ریاضت اور للہیت قابل رشک تھی ۔ میں ان کی سادگی اور انکساری کوہمیشہ سراہتارہاہوں ۔ میرے وقت وبے وقت آنے پربھی ہمیشہ مسکراہٹ سے استقبال کرتے ۔شاید سب کے ساتھ ہی ان کایہ معاملہ رہاہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔(آمین)