’’تبدیلی ‘‘ ٹیسٹ کیس میں کلین بولڈ!

’’تبدیلی ‘‘ ٹیسٹ کیس میں کلین بولڈ!
 ’’تبدیلی ‘‘ ٹیسٹ کیس میں کلین بولڈ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے کرپشن ثابت ہونے پر تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد ان کے نوجوان بیٹے علی ترین کو اس حلقہ سے امیدواربرائے ممبر قومی اسمبلی نامزد کر دیا گیا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ علی ترین کو ڈھنگ سے بات کرنا نہیں آتی اور نہ ہی ان کے کریڈٹ پر کوئی سیاسی جدوجہد یا تجربہ ہے۔

تحریک انصاف کے ٹکٹ پر امیدوار برائے قومی اسمبلی منتخب ہونے کی اہلیت صرف یہ ہے کہ موصوف ایک ارب پتی سزا یافتہ مجرم کا بیٹا ہے۔میرٹ کے یکسر خلاف یہ نامزدگی تحریک انصاف اور عمران خان کے منشور اور دعووں کے بالکل برعکس ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اٹھتے بیٹھتے ’’ موروثیت ‘‘ کا طعنہ دینے والے خان صاحب اپنی جماعت پر آنے والے اس ’’ ٹیسٹ کیس ‘‘ میں بری طرح کلین بولڈ ہوگئے ہیں۔

اس سے بھی بڑھ کر ایکسپوز وہ جہانگیر ترین کے خلاف آنے والے واضح فیصلے کے باوجود ان کا بھرپور دفاع کر کے ہو رہے ہیں۔جس کرپشن کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے بنچ نے جہانگیر ترین کو نا اہل کیا ، عمران خان اس کو کرپشن ماننے کو ہی تیار نہیں۔

گویا دوسرے معنوں میں وہ یہ رونا رو رہے ہیں کہ عدلیہ نے انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں کیا ہے۔کیا یہی وہ دوہرے معیار پر مشتمل ’’ تبدیلی‘‘ ہے ، جو عمران خان اس ملک کے اندر لانا چاہتے ہیں؟عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کو شائد اندازہ بھی نہیں کہ اس دوہرے معیار نے ان کی جماعت کو کس قدر شدید نقصان پہنچایا ہے۔

کمرشل مارکیٹ ،راولپنڈی کے رہائشی افضال احمد 15سال سے تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ تھے، لیکن جہانگیر ترین کے خلاف عدالتی فیصلہ آنے کے بعد سامنے آنے والے’’ سافٹ‘‘ جماعتی ردعمل اورعلی ترین کی نامزدگی سے وہ بری طرح مایوس ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’ اب یہ وہ نظریاتی تحریک انصاف نہیں رہی ، جس کو ہم نے جوائن کیا تھا ، بلکہ اب اس جماعت کو سرمایہ داروں ، قبضہ گیروں ، دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے کرپٹ سیاستدانوں ، جاگیرداروں اور ریٹائرڈ فوجی آفیسرز اورسابق بیوروکریٹس نے یرغمال بنا لیا ہے۔‘‘ تحریک انصاف کے اس منحرف دیرینہ کارکن کی طرح ملک بھر میں عمران خان کے دوغلے طرزِ عمل کے بعد مایوسی اور بددلی پیدا ہو رہی ہے، جس کاعملی اظہار لودھراں کے ضمنی الیکشن کے نتائج سے ہوگا۔


سوال یہ ہے کہ دو تہائی اکثریت سے منتخب کردہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف ’’ ڈکشنری فیصلہ‘‘ آنے کے بعد چور چور کی پھبتیاں کسنے والے عمران خان اب اپنی جماعت کے جنرل سیکریٹری کے خلاف آنے والے فیصلے کو مانتے ہوئے، جہانگیر ترین کو کرپٹ تسلیم کیوں نہیں کر رہے؟

بھولے بھالے خان صاحب سے ایک ٹی وی اینکر نے جب پوچھا کہ وہ عدالتی فیصلے کے بعد جہانگیر ترین کو کرپٹ تسلیم کیوں نہیں کر رہے؟ تو فرمانے لگے کہ ’’ جہانگیر ترین نے اِن سائیڈ ٹریڈنگ سے جو غیر قانونی پیسہ کمایا تھا ، وہ کرپشن اس لیے نہیں ہے کہ پکڑے جانے پر انھوں نے وہ غیر قانونی پیسہ واپس کر دیا تھا۔

‘‘اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔۔۔!یعنی خان صاحب بڑی ڈھٹائی سے یہ فرما رہے ہیں کہ ایک چور یا ڈاکو اگر لوٹی ہوئی رقم واپس کر دے تو وہ پاک صاف ہوجا تا ہے۔

ایک سزا یافتہ سرمایہ دار کا اس بچکانہ طرز پر دفاع کر کے عمران خان اپنی ’’ اے ٹی ایم‘‘کا ’’ حق نمک‘‘ تو ادا کر رہے ہیں،لیکن باشعور عوام کو اب وہ مزید ’’تبدیلی‘‘ کے نا م پر دھوکہ نہیں دے سکیں گے۔

اس دوہرے طرزِعمل کے بعد تحریک انصاف کی ’’ تبدیلی‘‘ کا اصل روپ سب پر آشکار ہو چکا ہے۔ سزایافتہ سرمایہ کار کا دفاع کرنے اور اس کے بے صلاحیت بیٹے کو نامزد کر کے عمران خان نے شفافیت، انصاف ، میرٹ، تبدیلی، اعلیٰ اقدار جیسے بلند بانگ دعووں کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دے دی ہے۔

اس طرزِ عمل کے بعد اب بھی اگر کوئی پاکستان تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی فرق سمجھتا ہے، تو اس کی عقل و شعور پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
ایک نظریہ پر قائم ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی جڑوں کو دیمک اسی دن لگ گئی تھی جب انہی کرپٹ لوگوں کو کھلی بانہوں سے خوش آمدید کہا جانے لگا ، جن کے خلاف دو دھائیوں سے تحریک انصاف جدو جہد کر رہی تھی۔

نہ صرف خوش آمدید کہا گیا، بلکہ ان کو جماعت کے مرکزی عہدوں پر بٹھا کر تحریک انصاف کی اصل نظریاتی لیڈر شپ کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ۔ فواد چوہدری کو تحریک انصاف کا مرکزی ترجمان بنا دیا گیا۔

یہ وہ فواد چوہدری ہیں جو عمران خان کے اس قدر خلاف تھے کہ ان پر تبّرا بازی کئے بغیر ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔محترمہ فردوس عاشق اعوان کو عمران خان ’’ کرپشن کی ماں‘‘ کہتے تھے، لیکن اب خیر سے وہ تحریک انصاف کی مرکزی عہدیدار ہیں۔

خان صاحب پہلے شیخ رشید احمد کو اپنا چپڑاسی رکھنے کے روادار نہیں تھے، لیکن اب وہی شیخ صاحب ان کے گلے کا ہار اور نامزد امیدوار برائے وزیر اعظم ہیں۔ بابر اعوان کو ’’جھوٹوں کا سردار‘‘ کا خطاب خود خان صاحب نے دیا تھا، لیکن اب وہ ڈرائی کلین ہونے کے بعد تحریک انصاف کے وکیل ہیں۔

شاہ محمود قریشی ، سردار آصف ، اشرف سونا، صمصام بخاری ، راجہ ریاض ، نذر محمد گوندل ، نور عالم خان ، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ، یار محمد رند وغیرہ پیپلز پارٹی میں تھے تو کرپٹ ، چور اور لٹیرے ، لیکن جب یہ سب تحریک انصاف میں آئے تو سب گناہ اور الزام ختم۔


ان تابڑ توڑ ’’ بھرتیوں ‘‘ کے بعد اب تو تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی کی ’’ بی ٹیم‘‘ محسوس ہوتی ہے۔خان صاحب اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ان’’ سابقہ دشمنوں‘‘ کو اپنی جماعت میں ڈال کر وہ تحریک انصاف کو مضبوط کر رہے ہیں۔

یہ غلط فہمی ان کی جنرل الیکشن میں ہی دور ہو سکے گی کہ وہ تحریک انصاف کو لگی اس دیمک سے کس قدر غلط توقعات وابستہ کئے ہوئے تھے۔اس تمام تر صورتحال میں تحریک انصاف کابا شعور اور نظریاتی کارکن شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہے۔

ان نظریاتی اور دیرینہ کارکنوں کی اکثریت شکوہ کناں ہے کہ تحریک انصاف کے جماعتی الیکشن میں سلیکشن کا عنصر غالب رہا۔ پارٹی فنڈز کو شیر مادر کی طرح استعمال کرنے کے حوالے سے بھی کارکنوں میں شدید تحفظات موجود ہیں۔

علیم خان ، نعیم الحق، پرویز خٹک اور عون چوہدری جیسے رہنماؤں سے بھی تحریک انصاف کا عام کارکن بد دل ہے ،لیکن چونکہ یہ سب خان صاحب کی کچن کیبنٹ کے ممبران ہیں، لہٰذا کارکنوں کے ہزار تحفظات کے باوجود ان کو سو خون معاف ہیں۔

اس وقت تحریک انصاف کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کا ایک بہترین موقع موجود ہے کہ جہانگیر ترین کا بودا دفاع چھوڑ کر ان کو عدلیہ کے فیصلے کے مطابق کرپٹ تسلیم کر تے ہوئے ان کی بنیادی رکنیت ختم کر دی جائے اور میرٹ کے خلاف ہونے والی علی ترین کی نامزدگی کو معطل کر کے لودھراں سے کسی فعال اور تجربہ کار سیاسی کارکن کو میرٹ پر نامزد کیا جائے۔ یہ اقدام نہ اٹھائے گئے تو تحریک انصاف کے متزلزل مستقبل کو مزید تاریک ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی!!

مزید :

رائے -کالم -