ٹرمپ ، پاکستان اور دنیا

ٹرمپ ، پاکستان اور دنیا
 ٹرمپ ، پاکستان اور دنیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نئے سال کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ٹویٹ سے ہوا جس میں پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوہرا کردار ادا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا گیا کہ امریکہ بے وقوف ہے جو اس نے پاکستان کو 33 ارب ڈالر دئیے۔

امریکی صدر ٹرمپ لاکھ خبطی اور متلون مزاج کیوں نہ ہوں، ان کا بیان امریکی اداروں کی پالیسی سے ہٹ کر نہیں ہو سکتا، یہی وجہ ہے کہ ان کی ٹویٹ کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے امریکی حکومت نے پاکستان کو ’’سزا‘‘ دینے والے اقدامات شروع کر دئیے ہیں، مختلف مدوں میں رقوم روک لی گئی ہیں اور واچ لسٹوں میں پاکستان کا نام ڈال دیا گیا ہے۔

اب ری پبلکن سینیٹر ڈاکٹر پال رینڈ نے امریکی سینیٹ میں ایک نیا بل لانے کا اعلان بھی کر دیا ہے جس میں کہا جائے گا کہ کسی بھی مد میں پاکستان کو ایک پیسے کی ادائیگی بھی نہ کی جائے، وغیرہ وغیرہ۔گویا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات امریکی ریاست کی پالیسی ہے، صرف اندازمختلف ہے جس میں امریکی صدر پریس کانفرنس یا خطابات کی بجائے پہلے ٹویٹر پر اعلان کرتے ہیں جس کے بعد ان کے ادارے ان اعلانات پر عمل درآمدکر ڈالتے ہیں۔

امریکی اعلانات اور اقدامات کے جواب میں پاکستان کی طرف سے رد عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی حکومت، فوج، وزیر اعظم ، سیاست دانوں اور دانشوروں کی طرف سے دفاعی اور جارحانہ دونوں طرح کے بیانات آرہے ہیں، ان میں سب سے جاندار موقف میاں نواز شریف کا آیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشکل حالات میں تجربہ کار قیادت کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے، ایک تجربہ کار لیڈر ہی قوم کی امنگوں کی صحیح ترجمانی کر سکتا ہے اور توازن صرف تجربہ سے حاصل ہو سکتا ہے۔

نا تجربہ کار لیڈر میں اعتماد ضرورت سے زیادہ یا بہت کم ہو سکتا ہے اور دونوں صورتوں میں بحرانی کیفیت میں وہ قوم کی قیادت کے لئے ناموزوں ہوتا ہے۔ بلا ضرورت زیادہ اعتماد کی سب سے بڑی مثال امریکی صدر ٹرمپ کی ہے جن کی حرکات و سکنات ایک سیاسی یا قومی لیڈر سے زیادہ WWF کے پہلوانوں جیسی ہیں، جیسے وہ ہر وقت ریسلنگ کے اکھاڑے میں ہوں۔


خیر، یہ تو امریکہ کا مسئلہ ہے کہ اس کی مد مقابل دو بڑی طاقتوں کے مد مقابل وہ کسے اپنا لیڈر بناتے ہیں۔ امریکہ کا اصل مقابلہ تو دنیا کی دو بڑی طاقتوں روس اور چین سے ہے، جن کی قیادت تجربہ کار، متوازن اور زبردست ہاتھوں میں ہے۔

چین کے صدر شی چن پنگ مزید پانچ سال، یعنی 2023ء تک کے لئے صدر منتخب ہو چکے ہیں، چین میں ژیانگ زی من (1993ء تا 2003ء) اور ہوجن تاؤ (2003ء تا 2013ء) کے دس، دس سالہ دورِ صدارت کے بعد شی چن پنگ کے دس سالوں (2013ء تا 2023ء) میں چین بلامبالغہ علاقائی طاقت سے عالمی طاقت بلکہ سپر پاور بننے کی پوزیشن میں آ چکا ہے، جس کا سارا کریڈٹ اس کی مضبوط اور تجربہ کار قیادت کو جاتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین میں پچھلے کئی عشروں سے تسلسل کی پالیسی ہے، جس میں صدر کو پانچ پانچ سال کی دو مدتیں دی جاتی ہیں، جس میں اس کا بنیادی ٹارگٹ معیشت کو دوگنا کرنا ہوتا ہے۔


دوسری طرف روس میں اس سال مارچ میں الیکشن ہوں گے، جن میں قوی امید ہے کہ صدر پیوٹن چوتھی مدتِ صدارت کے لئے منتخب ہو جائیں گے۔

وہ وزارتِ عظمیٰ کی ایک اور صدارت کی تین مدتیں پوری کر چکے ہیں اور سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد جس طرح انہوں نے روس کو قومی قیادت دی ہے، ان کا شمار بلاشبہ عظیم عالمی لیڈروں میں ہوتا ہے۔

چین اور روس کی طاقتور اور تجربہ کار قیادت کے مقابلے میں امریکہ میں ایک نا تجربہ کار صدر ہے، جس کا ماضی میں کوئی سیاسی تجربہ نہیں تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے دانستہ طور پر ایسے شخص کو وائٹ ہاؤس پہنچا دیا ہے جو ان کے اشاروں پر ناچتے ہوئے وہ کام بھی بے دھڑک کر گذرے جو ایک سیاسی طور پر تربیت یافتہ یا تجربہ کار صدر کرنے پر کبھی راضی نہ ہوتا۔

اس طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ نے پوری دنیا کا امن داؤ پر لگا دیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر چار سال وائٹ ہاؤس میں رہ گئے تو پوری دنیا کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی شدید مشکلات میں ڈالتے رہیں گے۔

موجودہ سال کے آغاز میں پاکستان کے علاوہ انہوں نے ایران کو غیر مستحکم کرنے کے لئے حکومت مخالف مظاہروں کو ہوا دی جس میں آیت اللہ خامنہ ای اور صدر ڈاکٹر حسن روحانی کو ہٹانے کی کوشش کا اعلان کیا، لیکن دو دن کے اندر ایرانی حکومت نے نہ صرف مظاہروں پر قابو پا کر انہیں ختم کر دیا، بلکہ اب کئی دنوں سے حکومت کی حمایت میں لاکھوں لوگ باہر نکل آئے ہیں جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ کو شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔

اسی طرح سال کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے خلاف جو محاذ کھولا، وہاں بھی انہیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ امریکی خواہشات کے برعکس شمالی اور جنوبی کوریا اب براہ راست مذاکرات کی طرف جا رہے ہیں۔

پاکستان میں معاملہ البتہ مختلف اس لئے ہے کہ یہاں دو تہائی اکثریت سے منتخب وزیر اعظم کو زبردستی گھر بھیجا گیا ہے، جس کی وجہ سے انہیں تحریک عدل چلانا پڑ ی ہے۔ کوٹ مومن کے جلسے میں بھی پچھلے تمام جلسوں کی طرح عوام کے جوش و خروش سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے عدل کی بحالی سب سے ضروری نکتہ ہے جس کے بعد امریکہ یا کسی اور ملک کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت نہیں ہو سکے گی۔

امریکہ کو جس طرح شام کے بعد افغانستان میں بھی شکست کا سامنا ہے ، وہ جھلّاہٹ میں پاکستان پر الزام تراشی کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ ایران اور شمالی کوریا میں بھی معاملات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قابو میں نہیں آ رہے۔ افغانستان کی ہمیشہ سے تاریخ رہی ہے کہ وہاں ہر آنے والے حملہ آور کو راہِ فرار ہی اختیار کرنا پڑی ہے۔

اپنے وقت کی سپر پاورز سوویت یونین اور برطانیہ شکست کھا کر افغانستان سے بھاگ چکے ہیں اور اب امریکہ بھی انہی مراحل سے گذر رہا ہے، کیونکہ وہ افغانستان میں ایک مشکل صورت حال میں پھنس چکا ہے۔ امریکہ کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ افغانستان میں زیادہ تعداد میں فوج نہیں رکھ سکتا۔

صدر ٹرمپ نے اگرچہ امریکی فوج کی تعداد بڑھاکر گیارہ ہزار سے پندرہ ہزار کی ہے۔ لیکن اتنی کم فوج کے ساتھ امریکہ، نیٹو اور اس کے اتحادی افغانستان پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کٹھ پتلی صدر اشرف غنی کی حکومت سکڑتے سکڑتے پچھلے دو سال میں 72 فیصد سے کم ہو کر اب صرف 52 فیصد پر حکومت کر رہی ہے، جبکہ باقی کا تقریباً نصف علاقہ ان کی حکومتی رٹ سے باہر ہے۔

امریکہ کے لئے افغانستان میں بہتر کنٹرول صرف اس طرح ممکن ہے کہ پاکستان سے رسد کی سپلائی لائن بلا تعطل جاری رہے۔ پاکستان کا راستہ استعمال نہ کرنے کا متبادل شمالی راستہ ہے، لیکن ایک تو اس پر کئی گنا زیادہ اخراجات آتے ہیں اور دوسرے وسطی ایشیائی ممالک روس کے زیرِ اثر ہیں۔

افغانستان کا محل وقوع ایسا ہے کہ روس، چین،ایران اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی مدد کے بغیر امریکہ وہاں کچھ نہیں کر سکتا۔ بھارت کو ا فغا نستان کی تھانیداری دے کر یہ سوچ لینا کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ وہاں صورتِ حال کنٹرول کر لیں گے نہ صرف زمینی حقائق کے منافی ہے، بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ہزیمت کا باعث بھی بنے گا۔

خیر، ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکیوں نے صدر بنایا ہے اور اس کا دورِ صدارت بھی وہی بھگتیں گے، لیکن چونکہ امریکہ کی ٹانگ دنیا کے کم و بیش تمام ممالک میں اڑی ہوئی ہے جس میں خاص طور پر ہمارا خطہ بہت اہم ہے، اس لئے پاکستان بھی اس سے براہِ راست متاثر ہو گا۔

امریکی حکومت کی پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی کا سب سے زیادہ فائدہ چین اور روس کو ہوگا، کیونکہ پاکستان ان دونوں ممالک سے اپنی بجائے ان کی شرائط پر معاملات طے کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس وقت بھی سی پیک اور دوسرے بہت سے مالی معاملات پر پاکستان اور چین مذاکرات کے مراحل میں ہیں۔

اگر حالات نارمل ہوتے تو پاکستان خود مختار طریقے سے معاملات کرتا ، لیکن چونکہ حالات غیر معمولی ہیں، اس لئے پاکستان یہ معاملات دباؤ کی حالت میں کرنے پر مجبور ہو گا۔ خطے کی صورتِ حال پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ روس اور چین کے بعد ایران اور ترکی کے ساتھ بھی پاکستان کے معاملات طے ہوں گے اور امریکہ کے خلاف ایک وسیع تر علاقائی اتحادT CRIP وجود میں آئے گا۔

چونکہ حالات بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، جس میں پاکستان پر شدید دباؤ بھی ہے، ایسے حالات میں پاکستان میں مضبوط اور تجربہ کار قیادت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس اہم مرحلے پر میاں نواز شریف کو اقتدار سے الگ کئے جانے کا پاکستان کو شدید نقصان ہو گا۔

اگر چند لمحات کے لئے پانامہ، اقامہ وغیرہ کو درست مان بھی لیا جائے تو قوم کو اس میں الجھانے کی بجائے مضبوط قیادت کا تسلسل برقرار رکھنا زیادہ ضروری تھا۔ اب بھی وقت ہے سیاست کو عدالتوں سے نکال کر عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہئے اور غیر منتخب طاقتوں کو ملک کے وسیع تر مفاد میں الیکشن کے سال میں مداخلت سے گریز کرتے ہوئے تمام سیاسی قائدین کو لیول فیلڈ دینی چاہئے۔ غیرجمہوری اور غیر منتخب طاقتوں کی وجہ سے پہلے بھی ملک ٹوٹا تھا ، تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے عدالتی فیصلوں کی بجائے عوامی رائے کی بالا دستی یقینی بنانی چاہئے تاکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خبطیوں کو پاکستان کے خلاف کوئی بات کرنے کی جرات نہ ہو سکے۔

مزید :

رائے -کالم -