حکیم محمد سعید ،نباض ملت
17اکتوبر1998ء کی صبح کراچی کی شاہراہ پر وہ اُجلا سفید لباس سرخ خون سے تربتر تھا اور پاکستان کے مردوزن اور نونہال خلاؤں کو گھورتے ہی رہ گئے ،انہیں دہکتی دھوپ سے بچانے والا سائبان زمین کی گہرائیوں میں جا رہا تھا ۔سفاک قاتلوں نے آدمیوں کی بھیڑ میں موجود اس ملک کے ہمدرد دوست حکیم محمدسعید کو خون میں نہلا کر ہم سے چھین لیا ۔انسانی تاریخ میں چند ہی ایسے لوگ آتے ہیں جو اپنے افکار و کردار کے سبب خود تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ،ان میں سے ایک شہید حکیم محمد سعید تھے جنہوں نے نہ صرف طب میں نام کمایا بلکہ علم و ادب میں بھی اُنکی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں ۔
حکیم صاحب نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جو سراسر مذہبی تھا ۔حضرت خواجہ باقی باللہ دہلی کے ایک نہایت ہی بزرگ اللہ اور خدا کے محبوب ولی تھے ۔دہلی کے ایک بڑے بزرگ حضرت خواندمی ان کے سلسلے کے تھے ۔آپکے والد اُنکے مرید تھے ،اس لیے آپکی تعلیم بھی اسی انداز سے ہوئی ۔سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی ۔7سال کی عمر میں پہلا حج بیت اللہ کیا۔8سال کی عمر میں پورا قرآن حفظ کر لیا۔کم عمری میں ایک فسانہ بعنوان’’تسبیح‘‘چھپا تھا۔آپ اس حوالے سے فرماتے تھے کہ افسانہ تو چھپ گیا مگر تسبیح ہاتھ آگئی۔
حکیم صاحب چھوٹے بڑے کے امتیاز کئے بغیر اور عہدوں اور عمروں کا لحاظ رکھے بغیر ہر ایک شخص سے بڑے خلوص اور شفقت سے ملتے تھے۔حکیم صاحب کی خوبصورت شخصیت میں بڑا تنوع تھا ۔انکی من موہنی ذات کے بڑے ہی گوشے اور بڑی ہی جہات تھیں ،انکی شخصیت کا ایک پہلو انکا لطیف مزاح تھا جس میں خفیف سی چھیڑ چھاڑ کا رنگ بھی نمایاں ہوتا تھا۔1988 ء میں ایک بزم کے موقع پر راقم کی اہلیہ نے جب پہلی بار نیاز مندی کا شرف حاصل کیا توفرمانے لگے کہ آپ بخاری صاحب کی بیگم ہیں ؟کیا آپ وا قعی انکی بیگم ہیں !ارے بھئی وہ توکہتے ہیں کہ ابھی میری شادی بھی نہیں ہوئی ۔پھر اسی لمحے فرماتے ہیں کہ بیٹی میں تو مذاق کر رہا تھا۔آپ کسی بھی تقریب میں مدعو کیے جاتے تو وہاں موجود ماحول کے معیار اور عنوان کی مطابقت سے اپنے الفاظ کا انتخاب کرتے تھے۔ایک بار محترم طاہر یوسف نے علمی تقریب رکھی اور اُسکے ساتھ ایک عشائیہ کا بھی اہتمام تھا۔ مقررین کی لمبی لمبی تقاریر میں کافی وقت گزر گیا اور حاضرین میں ایک بے چینی سی کیفیت دکھائی دی۔ اختتام پر حکیم صاحب کو صدارتی کلمات ادا کرنا تھے تو حکیم صاحب نے وقت کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فکاہت ولطافت میں فرمایاکہ آج میں بھی دو تقاریر کروں گا ایک لمبی ایک چھوٹی تقریر ،چھوٹی یہ کہ شکریہ اور بڑی یہ کہ بہت بہت شکریہ۔انہیں الفاظ کے ساتھ ہی وہ ڈائس سے اتر گئے۔
آپ کے کارہائے نمایاں اتنے متنوع اور گونا گوں ہیں کہ مختصراً ان کا احاطہ مشکل ہے ۔آپ تعمیرات کا خاص ذوق رکھتے تھے ۔وہ عمارتوں کے نقوش اور تزئین و آرائش کو آخری شکل خود دیتے تھے جسکی زندہ مثال لاہور میں موجود ہمدرد مرکز ہے ۔یہ دیدہ زیب عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔آپکو کتابیں لکھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا ،آپ نے طب،صحت کے علاوہ اسلام اور تاریخ پر بھی کتابیں لکھیں۔جسکے تراجم انگریزی،پشتو کے علاوہ پنجابی اور سندھی میں بھی ہوئے۔حکیم صاحب کے خوابوں کی تعبیر مدینۃ الحکمت جسکے بارے میں آپ فرماتے تھے کہ یہ بڑا پیارا اور خوبصورت نام ہے، مجھے اس نام سے بڑاپیار ہے ۔حکیم صاحب کا مقصد حیات انکی محبت اور احترام اور احترام کا آخری مظہر’’مدینۃ الحکمت ‘‘ہے ۔1978 ء میں شاہ فیصل نے مکتہ المکرمہ میں ایک عالمی تعلیمی کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں دنیا بھر سے ماہرین تعلیم جمع ہوئے ان میں حکیم صاحب کو بھی مدعو کیا گیا ۔حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ تمام دن ہم سب کانفرنس میں مصروف رہتے جب کہ میں عشاء کے وقت خانہ کعبہ پہنچ جایا کرتا تھا ۔ساری رات وہاں رہتا تھا، طواف کرتا تھا سعی کرتا تھا ۔ فجر ادا کر کے ہوٹل واپس آ جایا کرتا ۔پانچ راتیں میں بالکل جاگتا رہا اور دن بھر کام کرتارہا ۔آپکا قول ہے : ’’انسان سونے کے لیے دنیا میں نہیں آیا ہے۔‘‘
وہ فرماتے ہیں ایک رات طواف کر کے مقام ابراہیم پر بیٹھا تھا یہ وہ جگہ ہے جہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیر نو کی تھی ،وہاں بیٹھ کر غور کرتا ،سوچتا اور فکر کرتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے تہجد کے وقت خیال آیا کہ مجھے تعلیم کے میدان میں کچھ کام کرنا چاہیے اور کوئی بڑا کام کرنا چاہیے اسکے ساتھ ساتھ مدینۃ الحکمت کا نام ذہن میں آیا ۔وہاں بیٹھ کر ایک منصوبہ تیار کیا جہاں آج نونہالوں کے لیے تعلیم کا مرکز ہمدرد ویلج اسکول ہمدردپبلک اسکول نوجوانوں کے لیے کالجز،ہمدردیونیورسٹی ہیں۔ہمدرد یونیورسٹی کے تحت ’ہمدرد انسٹیٹیویٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی ، ہمدرد کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینڈسٹری ، ہمدرد المجید کالج آف ایسٹرن میڈیسن ،ہمدرد انسٹیٹیویٹ آف مینجمنٹ سائنسز،ہمدر د انسٹیٹیویٹ آف ایجوکیشن اینڈ سوشل سائنسز،ہمدرداسکول آف لاء،ڈاکٹر حافظ محمد الیاس انسٹیٹیویٹ آف انوائر مینٹل سائنسز،فیکلٹی آف انجیئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی،فیکلٹی آف فارمیسی‘جیسی فیکلٹیز کام کر رہی ہیں ۔
بیت الحکمہ میں اس وقت پانچ لاکھ سے زائد کتب جو مختلف موضوعات پر ہیں اسکے علاوہ ہزاروں رسائل و جرائد موجود ہیں ۔ حکیم صاحب کو ایک افسوس تھا کہ آپ فرماتے تھے کہ پاکستان میں علم و حکمت سے لگاؤ کم ہے اور پاکستان کے دولت مند اپنی دولت علم و حکمت پر کم ہی خرچ کرتے ہیں۔
حکیم صاحب فرماتے تھے کہ میں ’’ایک ناشتہ اور ایک کھانا‘‘کا قائل ہوں اور میں تم سے اور پوری قوم سے کہتا ہوں کہ نبی اکرم ﷺ کی ہدایت کے مطابق صبح اچھا ناشتہ کرو تاکہ دل لگا کر کام کر سکو اورمغرب کے بعد کھانا کھا لو۔یہ غذا تمہاری حقیقی جسمانی ضرورت کیلئے کافی ہے ۔حدیث نبوی اور سائنس بھی اسکی تائید کرتے ہیں ۔
حکیم صاحب فرماتے تھے کہ میری اچھی صحت کا راز ایک یہ بھی ہے کہ میں نے کبھی چائے کا مزاتک نہیں چکھا۔سگریٹ کبھی نہیں پیا اور شراب جیسی منحوس چیز کے قریب نہیں گیا ۔
شامِ ہمدرد جو اَب ہمدر دمجلس شوریٰ کی شکل اختیار کر گئی ہے جس میں اراکین محترم حکومت اور عوام کے لیے راہیں تجویز کرتے ہیں تاکہ وہ ان تجاویزپر غور کر کے اچھائیوں کو چن لیں ۔معزز اراکین ہمدرد مجلس شوریٰ کے ذریعے ملک و ملت کے لیے راہِ فکر و عمل دکھانے کیلئے کوشاں ہیں۔
حکیم صاحب نے فرمایا کہ محبت جب اپنی بلندیوں کو چھوتی ہے تو پھر اس کے جلوے بھی ایک شان رکھتے ہیں اور جب نونہالوں سے محبت بے کراں ہوتی ہے تو انسان کو ہر بچے سے محبت ہو جاتی ہے ۔ایسے بلند انسان کو ہر بچہ اپنا بچہ نظر آنے لگتا ہے اور یہ محبت کی عظمت ہے ایسے انسان وہ ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بھی مہربان ہوجاتا ہے ۔ا س محبت کو جب میں نے محسوس کیا تو مجھے بچوں کیلئے بزم ہمدردنونہال شروع کرنے کا خیال آیا۔یہ ایک پلیٹ فارم اور فورم ہے جو اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جسکے ذریعے نونہال اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کر رہے ہیں اور حکیم صاحب کی اپنی خواہش تھی کہ ان نونہال اور نوجوانوں کو عزم ،حوصلے ،خود اعتمادی اور خود داری کے جذبہ سے مزین کرے انکی تعلیم و تربیت کا اہتمام کر دیا جائے، آخر نونہالوں کو ہی جوان ہو کر قوم کی با گ دوڑ سنبھالنا ہے ۔
بچوں سے محبت کا عالم یہ تھا کہ اکثر دیکھنے میں آیا کہ بزم ہمدرد نونہال اسمبلی کے دوران تمام کرسیاں بھر گئیں تو صف اوّل کی کرسیوں کے آگے اسٹیج کے نیچے بچوں کے لیے چادریں بچھا دی جائیں اور بچے بیٹھ جایا کرتے ۔اس موقع پر حکیم صاحب اپنی اسٹیج والی کرسی چھوڑ دیا کرتے اور خود بچوں کے درمیان تشریف لے آتے ۔حکیم صاحب کا مقصد یہ ہوتا کہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بچوں کی وجہ فرش پر بیٹھے ہوئے بچے احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائیں، کہیں انکی دل آزاری نہ ہو۔
حکیم صاحب وقت کے بہت زیادہ پابند تھے انکی کوشش یہی ہوتی کہ ہمدرد نونہال کی سبھی مجالس کا آغاز بروقت ہو ۔ مجھے ٹھیک سے یاد ہے کہ ایک بار گورنر پنجاب بطور صدر اسمبلی میں مدعو ہوئے تھے۔ صرف گورنر صاحب کا تین منٹ لیٹ ہونے کا پیغام آیا آپ فرمانے لگے پروگرام اپنے وقت پر شروع کر دیا جائے ۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
اکثر فرماتے ہمیں اپنے کردار اور عمل سے بچوں کی تربیت کرنا ہے۔آپ نے نہ صرف خود لکھنے کی طرف توجہ دی بلکہ دوسرے افراد کو بھی اسکی طرح راغب کیا۔آپ نے بچوں کے لیے ایک شعبہ نونہال ادب کے نام سے قائم کیا جسکے تحت دو سو(۲۰۰)سے زائد کتابیں چھپ گئی ہیں جس میں مختلف ممالک کے سفر نامے بے حد مقبول ہوئے ۔اس سے قبل بچوں کے لیے سفر نامہ نہیں لکھا گیا تھا ۔حکیم صاحب نے اسکی ابتداء کی ۔
بچوں سے محبت کا ایک اور انداز یہ کہ آپ نے بچوں کے لیے دینی کتابیں بھی لکھی ہیں۔’’نقوشِ سیرت‘‘کے نام سے رسول ﷺ کی پاک زندگی کے سبق آموز واقعات پانچ حصوں میں لکھے گئے۔اس طرح حضورﷺ کی احادیث مبارکہ پر مبنی خوبصورت کتاب ’’خوب سیرت‘‘بھی شائع کی گئی۔حکیم صاحب ملک بھر کے نہ صرف بزرگوں ،نوجوانوں بلکہ نونہالوں سے خاص طور پر ملاقاتیں کرتے تھے ۔ہمدر دویلج اسکول ،ملک بھر میں ہمدرد فری موبائل ڈسپنسری کا نیٹ ورک،کم وسائل مگر ذہین طلباء و طالبات کیلئے وظائف اوربیواؤں ،یتیموں ،نادار غربا و معذور افراد کیلئے مقررکرہ وظائف آج شہید حکیم محمد سعید کیلئے صدقہ جاریہ بنے ہوئے ہیں ۔حکیم صاحب کو قدرت کے عطا کردہ دست شفاء سے شفا بانٹتے تھے ۔اپنے مریضوں سے زیادہ آخری دنوں اُنکا قوم کی نبض پر ہاتھ تھا اور انہوں نے مرض کی مکمل تشخیص کر لی تھی شاید یہی وجہ تھی کہ انہیں روزہ کی حالت میں جام شہادت پلا دیا گیا۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔