اس گورے نے اپنی زندگی روہنگیا مسلمانوں کے لئے وقف کردی، ایسا کام کردیا کہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں پر بازی لے گیا

اس گورے نے اپنی زندگی روہنگیا مسلمانوں کے لئے وقف کردی، ایسا کام کردیا کہ ...
اس گورے نے اپنی زندگی روہنگیا مسلمانوں کے لئے وقف کردی، ایسا کام کردیا کہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں پر بازی لے گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) برطانیہ میں ایک ڈاکٹر کی بیگم کا انتقال ہو گیا جس پر اس نے آئندہ زندگی بھر کے لیے ایسا کام کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ سن کر آپ اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق 64سالہ آئیان کراس نامی یہ ڈاکٹر برطانوی شہر لیسیسٹر میں 25سال سے جنرل فزیشن کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ کچھ عرصہ قبل اس کی محبوب بیوی کا انتقال ہوا تو اس کے بعد اس نے نوکری چھوڑ کر بنگلہ دیش جانے اور وہاں روہنگیا مسلمانوں کا مفت علاج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

’اس چیز کے بعد اب خواتین کو مردوں کی بالکل بھی ضرورت نہ رہے گی‘ معروف ترین یونیورسٹی ہارورڈ کے پروفیسر نے مردوں کو خبردار کر دیا، جان کر پاکستانی مردوں کے ہوش اُڑجائیں گے
اس نے اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے میڈیسنز سینز فرنٹیئرز نامی تنظیم جوائن کر لی جو دنیا بھر میں پناہ گزینوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کرتی ہے، کچھ دنوں بعد ہی تنظیم نے آئیان کی خواہش پر اسے بنگلہ دیش بھیج دیا جو اب روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں میں ان کا علاج کر رہا ہے۔آئیان نے ’مرر آن لائن‘ کے لیے لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں بتایا ہے کہ ”بنگلہ دیش میں آ کر مجھے احساس ہوا کہ روہنگیا مسلمان کس اذیت سے دوچار ہیں۔ میں نے ایسے لوگ بکثرت دیکھے جو میانمار سے آنے کے ایک دن کے اندر ہی موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہ لوگ انتہائی زخمی یا شدید بیماری کی حالت میں بنگلہ دیش پہنچے تھے۔ میں نے یہاں ایسے دن بھی دیکھے ہیں جب ایک ہی روز 20ہزار سے زائد مسلمان جان بچا کر میانمار سے بنگلہ دیش پہنچے۔ یہ لوگ انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں بنگلہ دیش پہنچتے ہیں جہاں بھوک اور علاج کی کمیابی جیسی نئی آفتیں ان کا سامنا کررہی ہوتی ہیں۔“


آئیان نے لکھا ہے کہ ”یہاں 3ہزار ایکڑ کے ایک پارک میں 6لاکھ20ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان رہائش رکھنے پر مجبور ہیں اور ان کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔نئے آنے والوں کی اکثریت کے جسموں پر لگے گہرے گھاﺅ ان پر ہونے والے سفاکانہ ظلم کی کہانی بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ کئی لوگ گولیوں سے زخمی ہوتے ہیں، کئی بندوقوں کے دستوں اور کئی خنجروں اور چاقوﺅں سے۔ کچھ بارودی سرنگوں کی زد میں آ کر ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو چکے ہیں۔میں نے ایک شخص کو دیکھا، جب اس کے گاﺅں پر برمی فوجیوں نے حملہ کیا تو اس نے اپنی چند سال کی بیٹی کو سینے سے لگا کر بھاگنے کی کوشش کی۔ بچی نے باپ کی گردن کو مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا لیکن جب فوجیوں نے ان پر فائرنگ کی تو ایک گولی بچی کے بازوں کو چیرتی ہوئی اس کے باپ کی گردن میں پیوست ہو گئی۔وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا اور بیٹی باپ کے مضبوط ہاتھوں سے زمین پر گر گئی۔پھر یہ اکیلی بچی اپنے بازوں کے زخم کے ساتھ گاﺅں کے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر جس طرح بنگلہ دیش تک پہنچی اور اس کی جو حالت تھی وہ بیان سے باہر ہے۔“