نا اہلی اور نکما پن: کیا پنجاب حکومت یہ داغ دھو پائے گی؟

نا اہلی اور نکما پن: کیا پنجاب حکومت یہ داغ دھو پائے گی؟
نا اہلی اور نکما پن: کیا پنجاب حکومت یہ داغ دھو پائے گی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کل اخبارات میں یہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی کہ پنجاب حکومت نا اہل اور نکمی ہے۔ یہ بات کسی سیاسی مخالف نے نہیں، بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کی ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف چیف جسٹس کہہ رہے ہیں پنجاب حکومت سے معاملات نہیں چلائے جا رہے۔

چیف جسٹس نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ پنجاب حکومت کی نا اہلی اور نکمے پن کے بارے میں ریمارکس عدالتی حکم کا حصہ بنا رہے ہیں، گویا بزدار حکومت کے لئے یہ تاریخ بھی رقم ہونے جا رہی ہے کہ عدالتی فیصلے میں اس کی نا اہلی مستند ہو گئی ہے، حالانکہ آج کل وزیر اعلیٰ عثمان بزدار خاصے متحرک ہو چکے ہیں، انہوں نے بغیر پروٹوکول کے شیخوپورہ کا دورہ کیا اور سخت اقدامات بھی اٹھائے، گویا اب وہ سپیڈ پکڑ رہے ہیں، لیکن ان کے وزراء میں وہ تحرک نظر نہیں آ رہا۔ خاص طور پر ڈاکٹر یاسمین راشد توقع کے برعکس محکمہ صحت کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھانے سے قاصر دکھائی دے رہی ہیں، سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی نا اہلی اور نکمے پن کا تذکرہ بھی انہی کی وزارت کے حوالے سے کیا ہے، کیونکہ کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ کیس میں سپریم کورٹ کی ڈائریکشن کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں کی گئی، نہ ہی اس بارے میں مسودۂ قانون تیار کیا جا سکا۔ یہ دوسری بار ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی چیف جسٹس نے سرزنش کی ہے۔

حیرت ہے کہ خاتون وزیر بغیر تیاری کے سپریم کورٹ چلی جاتی ہیں اور وزیر اعلیٰ کے لئے شرمندگی کا باعث بن رہی ہیں، ان کی اگر بات نہیں سنی جاتی تو انہیں یہ معاملہ وزیر اعظم عمران خان کے نوٹس میں لانا چاہئے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ وہ خالی ہاتھ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہو جائیں اور چیف جسٹس انہیں بری کارکردگی کا سرٹیفکیٹ دے دیں۔
چیف جسٹس نے ان کے بارے میں کہا کہ سپریم کورٹ کو آپ سے توقعات تھیں، لیکن آپ نے مایوس کیا۔ میں سمجھتا ہوں اس قسم کے ریمارکس کسی بھی حکومتی عہدیدار کے لئے، ناکامی کا سرٹیفکیٹ ہوتے ہیں۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ قانون سازی کے معاملے میں پی ٹی آئی وفاق اور صوبے میں بالکل ناکام نظر آتی ہے۔ دونوں جگہ پانچ ماہ کے دوران ایک بل بھی منظور نہیں کیا جا سکا ،نہ ہی نئی قانون سازی ہوئی ہے۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آنے لگی ہے کہ حکومت پارلیمینٹ کو استعمال نہیں کر پا رہی۔

سپریم کورٹ نے اگر یہ کہا ہے کہ پنجاب میں نا اہلی اور نکما پن موجود ہے اور حکومت سے معاملات نہیں چلائے جا رہے تو ان کا مدعا بھی یہی ہے کہ معاملات چلانے کے لئے جو قانون سازی درکار ہے، وہ نہیں کی جا رہی۔ تحریک انصاف تو نئے پاکستان اور نئے نظام کا دعویٰ کر کے حکومت میں آئی ہے۔ نئے نظام اور نئے پاکستان کے لئے قانون سازی تو اشد ضروری ہے۔ اگر پرانے قوانین ہی کو جاری رکھنا ہے اور ان میں نئے تقاضوں کے مطابق ترمیم نہیں کرتی، تو پھر معاملات کیسے چل سکیں گے؟ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔

ماضی میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت اسی صوبے کی وجہ سے چلتی رہی ہے۔ شہباز شریف کے اندازِ حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ،تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے دور میں معاملات نہیں چل رہے تھے یا نکما پن موجود تھا۔

ان کی حکومت پر متحرک اور با خبر ہونے کا گمان گزرتا تھا۔اب ایسا نہیں ہے۔ صرف مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بنانے میں صوبائی وزراء کی کارکردگی نظر آتی ہے، وگرنہ عملاً صورت حال نا قابل رشک ہے۔ ابھی تک پنجاب حکومت اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کر سکی۔ اس نے کس طرف جانا ہے اور حالات کی بہتری کے لئے کیا اقدامات اٹھانے ہیں؟
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اگر اچانک دوروں کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں، شہباز شریف یہ کام بہت پہلے کر چکے ہیں ،انہیں تحریک انصاف اسی لئے تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے کہ وہ شو آف زیادہ کرتے تھے اور عملاً کام کم۔ اب عثمان بزدار ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یہ سب کچھ کرتے ہیں تو اس سے کوئی بہتری نہیں آنے والی۔ عثمان بزدار اس سے پہلے اپنے دیئے گئے احکامات کا حشر دیکھ چکے ہیں، انہوں نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ افسروں کو دروازے کھلے رکھنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

پھر اس کے بعد انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا کہ اس حکم کا کیا حشر ہوا۔ افسران پہلے سے زیادہ عوام سے دور ہو گئے ہیں۔ پولیس کا رویہ سب کے سامنے ہے۔ آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی ایک اچھی شہرت کے مالک افسر ہیں مگر ان کی گرفت کمزور نظر آ رہی ہے، صوبے بھر میں پولیس بے لگام ہو چکی ہے۔

چنیوٹ کا واقعہ بد ترین پولیس گردی کا حامل ہے ، جس میں پولس والوں نے عورتوں کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور زمین پر پٹخا۔ پھر وہی معلطی ہوئی اور پھر وہی مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا، مگر چند روز بعد وہ باہر اور پھر شہریوں کے سینے پر مونگ دل رہے ہوں گے۔
اب کوئی بتائے کہ عمران خان کا ایجنڈا نمبر ون یہ تھا کہ وہ پنجاب پولیس کو ٹھیک کریں گے۔ آغاز میں شور بھی بہت سنا گیا مگر ہوا کیا۔ سب کچھ وہی کا وہی، بلکہ اب تو لگتا ہے کہ تحریک انصاف نے بھڑوں کے اس چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے توبہ کر لی ہے اور سب کچھ پولیس افسران کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

مثلاً اب صرف یہ خبر آتی ہے کہ کسی بڑے واقعہ کے بعد وزیر اعلیٰ آئی جی سے رپورٹ طلب کر لیتے ہیں، اس رپورٹ طلب کرنے کے بعد کیا ہوتا ہے، اس کی کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ پولیس کے اندر جو اچھے افسران ہیں، وہ اس صورت حال پر کڑھتے ہیں اوراپنے طور پر پولیس کو بہتر بنانے پر توجہ دے رہے ہیں۔

مثلاً مجھے لاہور سے ڈی آئی جی محمد احسن یونس کا فون آیا، جو پنجاب پولیس کمپلینٹ سیل کے انچارج ہیں، انہوں نے بتایا کہ آئی جی نے یہ سیل قائم کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو پولیس سے جو ریلیف درکار ہے، اسے یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا سب سے اہم بات ایف آئی آر کا اندراج ہے جس میں پولیس لیت و لعل سے کام لیتی ہے۔

جب کوئی اس کمپلینٹ سیل سے رجوع کرتا ہے تو فوری ایکشن لیتے ہوئے متعلقہ ڈی ایس پی کو لائن پر لا کر مدعی سے بات کرائی جاتی ہے۔ اگر پولیس کی نا اہلی ثابت ہو جائے تو فوری کارروائی کی جاتی ہے اور مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے۔ اُدھر آر پی او ملتان وسیم خان سیال نے ایک ملاقات میں بتایا کہ 31 اکتوبر 2018ء سے اب تک قبضے کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، نہ ہی ایف آئی آر کے لئے درخواست دی گئی ہے، کیونکہ تمام ایس ایچ اوز کو بتا دیا گیا ہے کہ اگر ان کے علاقے میں زمین یا مکان پر قبضے کا کوئی واقعہ ہوا تو انہیں ذمہ دار سمجھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تھانے کی سطح پر مسائل حل نہیں ہوتے اور درخواست گزار سی پی او یا آر پی او کے پاس آتے ہیں تو جس تھانے کی حدود سے زیادہ درخواست گزار اعلیٰ افسران تک پہنچتے ہیں، وہاں کے ایس ایچ اوز کو نا اہلی کا مرتکب قرار دے کر کارروائی کی جاتی ہے۔
اس طرح پولیسنگ کے معیار میں بہتری آ رہی ہے۔ یہ سب وہ کام ہیں جو پولیس افسران اپنی سطح پر کر رہے ہیں، تحریک انصاف کی حکومت نے ایسی کوئی پولیس ریفارمز متعارف نہیں کرائیں جو پولیس کی اصلاح کر سکیں۔گورننس کی بہتری کے لئے بہت سے کام سپریم کورٹ کر رہی ہے۔ مثلاً شہری علاقوں سے پٹواری سسٹم ختم کر دیا ہے، جس سے عوام کو ریلیف ملا ہے۔ اسی طرح قبضہ گروپوں کے خلاف سپریم کورٹ سخت فیصلے کر رہے ہیں اور حکومت کے لئے یہ آسان بنا رہی ہے کہ وہ قبضہ مافیا کے خلاف کھل کر ایکشن کرے،نہ تو عدالتوں کی طرف سے حکم امتناعی ملے گا اور نہ کوئی دوسرا ریلیف۔ سپریم کورٹ ہسپتالوں کے امور بھی بہتر بنانے کے لئے سخت فیصلے دے رہی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں عوام سے لوٹ مار کو روکنے کے لئے بھی عدالت عظمیٰ نے اپنا کردار ادا کیا ہے،جس کی وجہ سے عوام کو علاج معالجے کی سہولتیں سپریم کورٹ کی دی گئی ہدایات کے مطابق محدود وسائل میں ملنے لگی ہیں۔

اسی طرح صاف پانی اور تعلیمی اداروں کی فیسوں کے حوالے سے بھی سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو ایک بڑا ریلیف فراہم کیا ہے، جسے اب یقینی بنا کر وہ عوام کو ایک اچھی حکومت کا تاثر دے سکتی ہے۔

یہ اور ایسے بہت سے پہلو اس بات کی گواہی ہیں کہ حکومت کے پاس کرنے کو بہت سا کام اور گنجائش موجود ہے،بشرطیکہ کچھ کرنے کی لگن بھی ہو اور صلاحیت بھی۔مُلک کے چیف جسٹس کی طرف سے نکمے پن اور نااہلی کے ریمارکس تو سیدھی سادی ایف آئی آر ہے۔ان کی موجودگی میں تو کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ عوام کی خدمت کر رہا ہے اور اُس نے اس حوالے سے کوئی کسر نہیں اُٹھا چھوڑی۔

عثمان بزدار ایک بھلے مانس آدمی ہیں،لیکن کیا وہ قوت فیصلہ بھی رکھتے ہیں؟کیا وہ بیورو کریسی پر قابو پا چکے ہیں یا اس کے ہاتھ میں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پنجاب میں ہر خرابی کی ذمہ داری اُن پر ڈالی جائے گی۔

البتہ اچھائی کی صورت میں بہت سے دعویدار پیدا ہو جائیں گے۔ انہیں آنے والے دِنوں میں یہ داغ دھونے کی کوشش کرنی چاہئے جو سپریم کورٹ کے ریمارکس نے پنجاب حکومت پر لگا دیاہے۔ یہ داغ اُسی صورت میں دُھل سکتے ہیں، جب وہ اپنی گورننس سے ثابت کریں کہ وہ نکمی بھی نہیں ہے اور نااہل بھی نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -