کیا کوئی قوم مردہ ضمیر کے ساتھ زندہ رہ سکتی ہے؟
پاکستان کا ایک ترانہ ہم اکثر مواقع پر سنتے ہیں یا ٹی وی کی سکرین پر دیکھتے ہیں: " ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں "۔۔۔لیکن کیا واقعی ہم زندہ قوم ہیں؟ کیا کوئی قوم مردہ ضمیر کے ساتھ بھی زندہ کہلا سکتی ہے؟ تو پھر ذرا اپنے ضمیرکو ٹٹول کر دیکھ لیجیے۔اگر ٹٹولنے سے آپ کو اپنے ضمیر زندہ محسوس ہوں تو پھر ایک نظر اپنی سڑکوں پر ٹریفک کو دیکھ لیں، سڑکوں، گلیوں، محلوں اور خالی پلاٹوں میں گند کو دیکھ لیں اگر پھر بھی آپ کو یہ خیال آئے کہ آپ کا ضمیر زندہ ہے تو اپنی خوراک کی اصلیت جاننے کی کوشش کریں، اپنے بازاروں میں گھوم پھر کر ایمانداری کے مظاہر دیکھیں پھر بھی شک دور نہ ہو تو اپنی کچہریوں میں بولے جانے والے سچ کا مشاہدہ کیجیے، اپنے تھانے کا چکر لگا لیں، محکمہ مال یا محکمہ برقیات کی یاترا کر لیں۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اسی واہمے کا شکار رہیں کہ آپ کا ضمیر شاید زندہ ہی ہے۔
تو پھر آئیں میں آپ کے مردہ ضمیر کا سرٹیفکیٹ مرتب کرواتا ہوں۔
گزشتہ جمعہ کے دن ابھی بیڈ ہی پر تھا کہ گاؤں سے میرے بھتیجے نے فون کیا کہ گاؤں کے ایک نوجوان ملک اقبال کا بیٹا فوت ہو گیا ہے اور گیارہ بجے جنازہ ہے۔ کیسے فوت ہوا؟ کیا ہوا؟ کہاں ہوا؟ میں نے سوال پہ سوال کر دیئے۔ بھتیجے نے جواب میں بتایا کہ لواحقین کچھ پردہ پوشی کر رہے ہیں معاملہ مشکوک ہے، تو آپ تحقیق کروائیں، میں نے کہا تو اس نے بتایا کہ یہ 33 سالہ نوجوان آزادکشمیر کے شہر ڈڈیال میں ایک آٹو ورکشاپ چلاتا تھا اور اسی ورکشاپ میں مردہ پایا گیا ہے۔ اور پولیس نے لاش خود اٹھائی ہے موقع سے اور پوسٹ مارٹم بھی کروایا گیا ہے۔ اس کے بعد پولیس نے میت ورثاء کے حوالے کی ہے۔
یہ بات سن کر مجھے اطمینان ہو گیا کہ اگر کوئی واردات ہوئی تو پولیس کارروائی کرے گی۔ اس کے بعد میں جنازے میں پہنچا اور تدفین کے دوران میں نے مقتول کے والد سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ دل کا دورہ اس نے جواب دیا، میں خاموش ہو گیا کہ اگر مرنے والے نوجوان کا والد قبر کے اوپر کھڑے ہو کر یہ کہہ رہا ہے تو یہ سچ ہی ہوگا۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد مختلف ذرائع سے خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ پولیس نے مرحوم کی لاش ورکشاپ( جس ورکشاپ میں وہ کام کرتا تھا) کی چھت کے ساتھ پھندے پر سے اتاری ہے۔ کچھ دیر بعد اس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔ اب بتایئے کہ کیا ہمارے ضمیر زندہ ہیں اور ہم زندہ قوم ہیں کیا کسی مہذب معاشرے یا زندہ قوم میں یہ ممکن ہے کہ ایک انسان قتل ہو جائے تو اس کی انتظامیہ اور لواحقین پردہ پوشی کر دیں؟ مہذب نہ بھی ہوں، کیا دنیا کی کسی آزاد ریاست میں یا کسی خطے میں ایسا ممکن ہے؟ ہو کیا گیا ہے ہمیں؟
یہ ٹھیک ہے کہ ہمارا یہ وطیرہ رہا ہے کہ قتل کی وارداتوں یا دوسرے جرائم کو دیکھ کر بھی ہم منہ پھیر لیتے ہیں کہ کہیں ہمیں سچی گواہی نہ دینا پڑ جائے، اور اپنی ذات کے لیے ان گنت جھوٹی گواہیاں دینا بھی ہماری ہی قوم کو ودیعت ہوا ہے۔ لیکن اب بات اتنی آگے بڑھ گئی ہے کہ قتل کی لرزہ خیز واردات کے باوجود سرے سے کوئی نوٹس ہی نہ لیا جائے؟ یہ اس بے حسی کا پہلا واقعہ بھی نہیں ہے۔
اس سے پہلے بھی اس گاؤں میں ایک مقتول نوجوان کو بغیر تحقیق کے دفنا دیا گیا تھا اور شنید یہ تھی کہ لواحقین نے خاموشی سے رقم لیکر ایسا کیا تھا۔ اور ابھی کچھ ہی دیر پہلے بھی اسی گاوں میں ایک نوجوان کی موت ہوئی تو اسے بھی دل کا دورہ قرار دیکر دفنا دیا گیا تھا لیکن کچھ ماہ بعد کسی نے ہمت کر کے معاملہ اٹھایا اور پولیس کی نگرانی میں قبر کشائی کر کے میت کے نمونے لیبارٹری میں بھیجے گئے تو ظاہر ہوا کہ یہ تو قتل ہے۔ جس میں اس کی بیوی اور بیوی کا آشنا ملوث تھے جو اب جیل میں ہیں۔ موجودہ کیس میں تصاویر سے صاف ظاہر ہے کہ یہ خود کشی نہیں ہے۔ بلکہ کسی نے قتل کے بعد لاش کو جلدی میں رسی کے ساتھ چھت پر باندھ کر یوں لٹکایا تھا کہ میت کے پاوں زمین پر تھے اور رسہ بھی پوری طرح کھینچا ہوا نہیں تھا۔ اب اس واردات کے کیا محرکات ہیں۔ یہ تو پولیس ہی سامنے لا سکتی ہے۔
لیکن پولیس نے کس طرح خاموشی سے یہ سب کچھ چھپایا ہے اور لواحقین کے منہ بھی بند کروا دیئے ہیں؟ اور تمام لوگ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ یہ سب ایک گاوں کی وارداتوں کا ذکر ہے جس کی آبادی چند سو نفوس پر مشتمل ہے اور اس گاوں میں خواندگی کی شرح پاکستان کی اوسط شرح سے کہیں بہتر ہے۔
تو بائیس کروڑ کی آبادی کے پسماندہ ترین علاقوں کو شامل رکھ کر سوچا جائے تو کیا کیا وارداتیں ہوتی ہوں گی اور کتنے انسانوں کو اسی طرح خاموشی سے موت کی نیند سلا دیا جاتا ہوگا؟ "جی ہم زندہ قوم ہیں "۔۔۔لیکن کم از کم میں تو خاموش تماشائی نہیں بن سکتا لہذا میں آج ہی ڈڈیال تھانے جا کر پولیس سے جواب طلب کروں گا اور انصاف کے لیے ہر فورم پر جاوں گا اور ہر دروازے پر دستک دوں گا۔
کیونکہ ایک فرد صرف اس کے خاندان کی ذمہ داری میں نہیں آتا بلکہ کسی بھی ریاست کا ہر فرد کا تحفظ اور اس کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ کوئی بھی جو جرم ہوتا ہے، وہ ریاست کے خلاف جرم ہوتا ہے۔ اسی طرح سول سوسائٹی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ جرائم کی بیخ کنی میں اپنا کردار ادا کرے۔