اخباری صنعت کا مستقبل
پاکستانی اخباری صنعت ایک بار پھر سخت حالات سے نبر د آزما ہے۔ یوں تو سارے ہی ذرائع ابلاغ اخبارات، ٹی وی چینل اور ایف ایم اسٹیشن سخت معاشی پریشانی سے دوچار ہیں ۔ ایسی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے کہ اخبارات کو اپنا وجود بچانا مشکل ہو گیا ہے۔ چھوٹے کم آمدنی والے اخبارات تو سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں۔ بڑے اخبارات نے اپنا سٹاف کم کر دیا ہے، اپنے پریس بند کردئے ہیں، اخبارات کی تقسیم محدود کردی ہے۔
قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے، مزید اقدامات کئے جارہے ہیں، تاکہ اخبار کو زندہ رکھا جاسکے۔ اخبارات کسی زمانے میں مشن ضرور ہوا کرتے تھے، لیکن اب تو اس لحاظ سے کاروبار ہے کہ اخبار تیار کرنے، بنانے والے کام کرنے والے لوگوں کو تن خواہیں بھی ادا کرنا ہوتی ہیں۔ اگر اخبارات کے پبلشر ہی تنہا اخبار نکال رہے ہوتے تو شائد انہیں اس طرح شور کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، لیکن ایک ایک اخبار میں کام کرنے والی افرادی قوت کو ہر ماہ تن خواہوں کی ادائیگی کرنا تو لازم ہوتا ہے۔
ایسے حالات میں دنیا بھر میں حکومتیں اخبارات کی مدد کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ بلکہ دانستہ بہائی جا رہی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کو اخبار کا مستقبل ہی سیاہ نظر آرہا ہے۔ انہوں نے ٹی وی چینلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد یا پھر سرکاری اشتہارات کی رقم کے پیش نظر یہ نتیجہ اخذ کر لیا ہوگا کہ اخبارات کا مستقل سیاہ ہے۔
ٹی وی چینلوں کی وجہ سے اخبارات کی اشاعت میں کمی ضرور ہوئی ہے، لیکن یہ رجحان ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔ پاکستانی اخبارات موجودہ حالات سے بھی کہیں زیادہ سخت حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف زندہ رہے ہیں ، بلکہ ترقی بھی کی ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی اخبارات کا مستقبل سیاہ نہیں رہا ہے۔
پاکستان میں دنیا سے ہٹ کر ایسا کیوں کر ممکن ہوگا۔ جرمنی کے کراچی میں متعین قونصل جنرل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے ’’ دنیا کے دولت مند شخص بل گیٹس نے بھی 2001 میں دعوی کیا تھا کہ اخبارات کی قدر عنقریب ختم ہوجائے گی، لیکن اب تک ان کا دعویٰ دھرے کا دھرا رہ گیا ہے ‘‘ خود امریکہ میں جہاں ٹیکنالوجی کی سہولت گھر گھر موجود ہے اور دیگرترقی یافتہ ممالک جاپان ، چین اور جرمنی میں تو اخبارات کا اثر بڑھا ہے، کم تو ہرگز نہیں ہوا ہے۔
اخبارات کے مالکان کی انجمن آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے وزیر موصوف کے ان خدشات کو بلا ضرورت اور بے وقت کی بات قرار دیا ہے۔ سوسائٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ اخبارات نے ماضی میں سخت حالات کا مقابلہ کیا ہے۔ سنسر شپ، اشتہارات کی جبری بندش، نیوز پرنٹ پر حکومت کا کنٹرول وغیرہ ایسے اقدامات ہوا کرتے تھے جو اخبارات کا گلا گھونٹنے کی کوشش ہوا کرتے تھے ، لیکن اخبارات زندہ رہے۔ اخبار شائع کرنے کا ڈیکلیئریشن منظور کرانا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ ایوب خان کا دور ہو یا مرحوم بھٹو کا یا مرحوم جنرل ضیاء الحق کی حکومت ہو، نیا اخبار شائع تقریبا ناممکن ہو گیا تھا ۔ جنرل ضیاء کے بعد کی حکومت کے دور میں ماضی کے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کو ختم کیا گیا اور نیا قانون بنایا گیا تب جاکر نئے اخبارات شائع کرنے کے خواہش مند اور شوقین افراد کے لئے گنجائش پیدا ہوئی تھی ۔
فوجی آمر جنرل ایو ب خان اور جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں تو اخبارات کے مالکان اور مدیروں کی گرفتاریوں سمیت ہر طرح کی سختیاں جھیلی ہیں۔ قدرت اللہ شہا ب اپنی کتاب ’’ شہاب نامہ‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں ’’چائے کے بعد پریس کے معاملات پر دوبارہ میٹنگ شروع ہوئی تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں اس مجلس میں ایک اجنبی کی طرح شامل ہوں۔ قومی پریس پر مضبوط کنٹرول قائم کرنے کے لئے نواب کالا باغ ( نواب امیر محمد خان ایوبی دور کے اس زمانے میں مغربی پاکستان کے مطلق العنان گورنر ہوا کرتے تھے ) سے لے کر ہر وزیر با تدبیر اپنی بساط کے مطابق طرح طرح کے نسخے تجویز کر رہا تھا۔ ایک صاحب کراچی کے (انگریزی) روزنامہ ڈان پر گرج رہے تھے ۔ دوسرے صاحب کے غیظ و غضب کا نشانہ لاہور کا روزنامہ نوائے وقت تھا۔
ان سب کی نظر میں یہ دو اخبارات سانپ کی مثل تھے جو حکومت پر ڈنگ مارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ان دونوں اخبارت کے زہریلے دانت نکالنے کے لئے بھانت بھانت کی تدبیریں اور تجویزیں پیش ہو رہی تھیں ۔کسی نے مشورہ دیا کہ ڈان اور نوائے وقت کو بھی پاکستان ٹائمز اور امروز کی طرح حکومت کے قبضے میں لے لینا چاہئے۔ اس پر ایوب خان بگڑ گئے کہ حکومت کے قبضے میں آکر پاکستان ٹائمز اور امروز چل نہیں رہے، بلکہ رینگ رہے ہیں ۔ اب مزید اخباروں کو قبضے میں لے کر حکومت کون سا نیا تیر مارے گی؟‘‘ یہ اقتباس دینے کا مطلب یہ واضح کرنا ہے کہ جس کا کام، اسی کو سانجھے۔
ایوب حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں ہی اخبارات پر قبضہ کر لیا تھا ۔ مخالفت کرنے والی آوازیں انہیں اور ان کے رفقاء کو پسند نہیں تھیں۔ حکومتوں کو اپنا کام کرنا چاہئے اور اخبارات کی اگر مالی اعانت نہیں کر سکتی ہیں تو ان کے مستقبل کو سیاہ قرار دینا حکومت کو زیب اس لئے نہیں ہے کہ یہ ایک ایسا حربہ ہے کہ پہلے سے محدود اشتہارات کی مارکیٹ کو مزید بد دل کردیا جائے، تاکہ جو تھوڑے بہت اشتہارات مل بھی رہے ہیں ، وہ بھی نجی کاروبار کرنے والے لوگ اخبارات کو دینا بند کردیں۔ یہ تو ہوئی فوجی آمر کے دور کی بات۔
یہ بھی تو ہے کہ آزاد اخبارات ہی مشکل گھڑی میں سیاست دانوں کی آواز عوام تک پہنچاتے رہے ہیں۔ ٹی وی چینل کا کیا ہے، ہوا کا جھونکا ہے، آیا اور گیا۔ بڑی لائبریریوں میں قیام پاکستان کے وقت کے اخبارات کی فائلیں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
الطاف گوہر روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونے والے اپنے کالموں کے مجموعہ پر مبنی ایک کتاب ’’لکھتے رہے جنوں کی حکایت ‘‘ کے 1997ء میں تحریر کئے گئے ایک کالم میں لکھتے ہیں ’’ محترمہ (بے نظیر بھٹو) نے فرمایا ’’ آپ اہل قلم اپنے آپ کو سیاست کا بادشاہ سمجھتے ہیں، نہ آپ کو کسی نے منتخب کیا، نہ آپ کسی کے سامنے جواب دہ ہیں ۔۔۔ آپ لوگ دروغ گو ہیں۔
جھوٹ آپ لوگوں کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ افاہیں پھیلانا آپ کا پیشہ ہے‘‘۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ اس سے قطع نظر کہ کون سا اخبار اچھا ہے اور کون سا برا، کون سا صحافی با ہمت اور راست گو ہے اور کون سا کسی کا زر خرید غلام ہے، بطور ادارے کے صحافت کا ایک جمہوری نظام میں بہت اہم مقام ہے ‘‘۔
دنیا بھر میں چینلوں کی بھر مار کے باوجود اخبارات پھل پھول رہے ہیں۔ جاپان، امریکہ، چین اور جر منی وغیرہ میں اخبارات کو اپنے قارئین کا اعتماد حاصل ہے۔ پاکستان میں اخبارات کے مالکان کی کوتاہیاں اپنی جگہ ضرور ہیں کہ انہوں نے اخبارات کی اشاعت بڑھانے پر کبھی توجہ نہیں دی ہے اور دیگر ضروری اقدامات سے بھی گریز کیا ہے، یہ کوتاہیاں اپنی جگہ، لیکن اخبارات کو مارنے کے مختلف حربے اختیار کئے جاتے ہیں، وہ خود نہیں مرا کرتے۔ بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ اخبارات شائع ہوتے ہیں حالانکہ وہاں ٹی وی چینلوں کی بھی بہت زیادہ بھر مار ہے۔
وہاں تو علاقائی زبانوں میں چینل موجود ہیں۔ یہ استدلال اپنی جگہ درست ہے کہ بھارت میں اخبار شائع کرنے والا کاغذ تیار کیا جاتا ہے، پاکستان نیوز پرنٹ در آمد کرتا ہے۔ بھارت میں اخبارات کی فروخت زیادہ ہے پاکستان میں فروخت کم ہے۔ بھارت میں اخبارات کے اشتہارات کی مارکیٹ وسیع ہے ، پاکستان اس مارکیٹ کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے۔
آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹر کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے، تاکہ بڑے ہوں یا چھوٹے اخبارات کے وجود کو برقرار رکھنے کی قابل عمل تجاویز پر غور کیا جاسکے ۔ اخبار کی قیمتوں میں اضافہ کوئی بہتر حل نہیں ہے ۔ حکومت کوئی بھی ہو اسے ایسے ہی اخبارات کی ضرورت اچھی لگتی ہے جو انہیں راستہ نہیں دکھاتے، بلکہ گمراہ کرتے ہیں، لیکن یہ دیر پا حربہ نہیں ہوا کرتا ہے۔
الطاف گوہر ’’لکھتے رہے جنوں کی حکایات‘‘ کے 1997ء میں تحریر کئے گئے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں ’’پچاس برس سے قوم جاگیردارانہ نظام کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے، نواب، سردار، خان اور وڈیرے عوام کی قسمت کے مالک بن چکے ہیں، نہ کوئی ریاستی ادارہ ان کی دسترس سے محفوظ ہے نہ عوام کے حقوق اور جمہوری اصول ان کی نظر میں کوئی وقعت رکھتے ہیں ، قوم کو اس صورت حال سے اس وقت نجات حاصل ہوگی جب آپ اپنے آپ کو اس بیہیمانہ نظام سے کنارہ کش کر لیں گے‘‘۔