اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 74
حضرت شیخ خیر نساجؒ کے بارے میں یہ واقعہ ہے کہ جب آپ دریا پر جاتے، تو مچھلیاں مختلف چیزیں لاکر آپ کے قریب کنارے پر رکھ دیتی تھیں۔ایک دن آپ کسی بڑھیا کا کپڑا بن رہے تھے تو اُس نے پوچھا کہ اگر تم نہ ملو تو مزدوری کس کو دے دوں۔
آپ نے فرمایا ’’میری مزدوری دریائے دجلہ میں پھینک دینا۔‘‘
پھر اتفاق سے ایسا ہی ہوا کہ جب وہ اُجرت لے کر آئی تو آپ موجود نہیں تھے چنانچہ اس نے وہ دینار دریا میں پھینک دئیے اور جب آپ دریا پر پہنچے تو ایک مچھلی نے پانی سے باہر آکر وہ دینار کنارے پر رکھ دئیے۔
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 73 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
***
شیخ ابو یعقوب بصریؒ فرماتے ہیں ’’میں ایک مرتبہ حرم شریف میں دس روز تک بھوکا رہا۔ یہاں تک کہ مَیں بھوک سے نڈھال اور ضعیف ہوگیا۔ میرے دل نے کوشش کی کہ جنگل کو نکل جاؤں۔ شاید جنگل میں کوئی ایسی شے مل جائے جس سے بھوک کو تسکین ہو۔ میں جنگل کی جانب کسی رزق کی تلاش میں چل پڑا۔
راستہ میں ایک سڑا ہوا شلجم زمین پر پڑا ملا۔ مَیں نے اسے اُٹھالیا۔ اسی وقت میرے دل میں بے چینی سی پیدا ہوئی، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کوئی شخص مجھ سے کہہ رہا ہے تو دس دن تک بھوکا رہا۔ آخر تیرا حصہ گرا ہوا اور بدرنگ شلجم تھا۔
اس آواز پر میں نے وہ شلجم پھینک دیا اور مسجد حرام میں واپس چلا آیا اور بیٹھا رہا۔ ناگاہ ایک مرد آیا اور میرے روبرو آکر بیٹھا اور اُس نے ایک تھیلی رکھ کر کہا۔’’یہ سو اشرفیوں کی تھیلی تیرے واسطے ہے۔‘‘
میں نے اس سے کہا ’’یہ خالص میرے واسطے کیوں ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’میں دس روز سے دریا میں تھا اور میری کشتی ڈوبنے کو تھی۔ اہل کشتی میں سے ہر ایک نے جدا جدا نذر مانی کہ اگر خدا ڈوبنے سے بچائے تو کچھ خیرات کروں گا۔ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر خدا مجھ کو بچالے تو یہ سو اشرفیوں کی تھیلی خیرات کروں گااور خانہ کعبہ کے مجاورین سے جس پر اول میری نگاہ پڑے اسی کو دوں گا اور تم سب سے پہلے مجھ کو ملے لہٰذا یہ اشرفیاں تم کو دیتا ہوں۔‘‘
میں نے اس سے کہا’’ اس تھیلی کو کھولو‘‘ اس نے وہ تھیلی کھولی تو بجائے اشرفیوں کے میدے کی روٹی، مصری اور بادام چھلے ہوئے اور شکر پارے اس تھیلی میں سے نکلے۔ مَیں نے ایک ایک مٹھی سب میں سے لے لی اور یہ کہا ’’باقی اپنے بچوں کو تقسیم کردینا۔ میری جانب سے یہ ان کو ہدیہ ہے اور تمہارا یہ میں نے قبول کیا‘‘ پھر میں نے اپنے دل سے کہا
’’اے نفس تیرا رزق دس روز سے تیری طرف چلا آرہا تھا اور تو اسے جنگل میں ڈھونڈنے گیا تھا۔
***
جوانی کے عہد میں حضرت ابو حفص حدادؒ کو ایک کنیز سے عشق ہوگیا تھا ۔اس کنیز کو حاصل کرنے کی خاطر آپ نیشا پور میں ایک جادوگر کے پاس گئے لیکن اس نے آپ کا کام کرنے سے پہلے یہ شرط لگائی کہ چالیس دنوں تک عبادت کو ترک کرنے کے بعد تشریف لادیں۔
چنانچہ اس کی ہدایت پر عمل کرنے کے بعد جب آپ اس کے پاس پہنچے تو اس نے طرح طرح کے جادو کرنے شروع کردئیے مگر اس کا ایک بھی جادوکارگرثابت نہ ہوا۔ اس پر اس نے آپ سے کہا ان چالیس دنوں میں ضرور آپ نے کوئی نیک عمل کیا ہے ۔
آپ نے فرمایا ’’میں نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا۔ البتہ ان دنوں میں مجھ سے اتنا ضرور ہوا کہ راستہ میں پڑے ہوئے پتھر وغیرہ اٹھا کر اس نیت سے کونے میں پھینک دیتا تھا کہ کسی کو ٹھوکر نہ لگے۔‘‘
یہ سن کو جادوگر نے کہا ’’کس قدرافسوس کی بات ہے کہ آپ ایسے خدا کی عبادت سے گریزاں ہیں جس نے معمولی سی نیکی کی وہ قبولیت عطا کی کہ میرے تمام جادو ناکام ہوکررہ گئے۔‘‘
آپ ؒ نے اسی وقت توبہ کرکے خدا کی عبادت شروع کردی۔ آپ کو لوہار ہونے کی بنا پر حداد کہا جاتا تھا۔(جاری ہے )