معیشت مستحکم، مگر عوام کا بھی خیال کریں
سٹیٹ بینک کی سہ ماہی رپورٹ میں معیشت کو مستحکم قرار دیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مالیاتی جاری خسارہ گزشتہ برس کی نسبت نصف سے بھی کم رہ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا کہ مہنگائی سات سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور پیداواری ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا یہ جی ڈی پی کی 4فیصد نمو بھی حاصل نہیں کر پائے گا۔ یوں جہاں معیشت کے استحکام کی خوشخبری دی گئی وہاں ترقی کی رفتار سے مایوسی جھلکتی پائی گئی ہے اور مہنگائی کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے۔ عام لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر اب مہنگائی سات سال کی بلند ترین سطح پر ہے تو آگے کیا ہو گا کہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اشیاء خوردنی اور ضرورت کے نرخ تک قابو نہیں آ رہے، سبزیاں،دالیں، گھی، آٹا اور مصالحہ جات کی قیمتیں ہر روز بڑھتی ہیں حتیٰ کہ یوٹیلٹی سٹورز کے لئے وزیراعظم کے چھ ارب روپے بھی کسی کام نہیں آ رہے، کیونکہ 7جنوری سے جو قیمتیں کم ہوئیں یہ گزشتہ پندھر واڑے کے دوران دوبارہ بڑھا کر کم کی گئی ہیں۔ دریں اثناء امریکہ، ایران کشیدگی کے اثرات بھی مرتب ہونا شروع ہو گئے، عالمی منڈی میں تیل کے نرخ 70 ڈالر فی بیرل تک چلے گئے، سونا ایک ہی روز میں 2600روپے فی تولہ مہنگا ہوا۔ ڈالر بھی اوپر جانا شروع ہو گیا اور روپے کی قدر کم ہو رہی ہے، اس سے مارکیٹ پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ اور مہنگائی مزید ہو گی، ایسے میں حکومت کے سخت اقدامات سے سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق معیشت مستحکم ہوئی ہے تو اس کے مثبت اثرات ملکی اور عوامی سطح پر کیوں محسوس نہیں ہوتے اور آخر شرح نمو ہر صورت 3.5فیصد اور اس سے کم ہی کیوں رہے گی؟ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ملکی ترقی کی رفتار ابھی تک پہلے جیسی بلکہ اس سے بھی کم ہے۔ اس لئے یہی فرض کیا جائے گا کہ حکومتی اقدامات کا اثر زرمبادلہ میں اضافے تک ہی محدود رہا اور جو استحکام ہے وہ بھی درآمدات کم اور ٹیکس بڑھا کر حاصل کیا گیا ہے۔حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے کے لئے بجلی، گیس اور پٹرولیم کے نرخ بڑھائے اور ابھی مزید اضافہ متوقع ہے، جو اور بھی گرانی کا باعث بنے گا، یوں معیشت کے ایسے استحکام کی بات عوام کے پلے نہیں پڑتی، حکومت کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ مہنگائی پر کنٹرول کیا جا سکے۔