لیکن تصویر سدا نہیں بکتی.....!
سوچتا ہوں کہ شہر قائد کے وہ "نیوز ایڈیٹر بھائی "اَب کیا"بیچتے"ہونگےجو ہمیں درس دیاکرتےتھےکہ بھائی! یہاں تو "بھائی" کی تصویربکتی ہے. . ...2003کی بات ہے ایک بڑے میڈیا گروپ کےشام کےاخبار کی لانچنگ کیلئے ہنگامی طور پر ادارتی ٹیم کیساتھ کراچی جانا پڑا... بزرگ صحافی جناب خالد چودھری،جناب اطہر عارف مرحوم ،شمیم صدیقی مرحوم ،عبدالرزاق شاہین اور عبدالجبار شاکر بھی"وقفےوقفے "سے"رہبر قافلے" میں شامل تھے...ہمارے پاس نیوز روم کے معاملات کی نگرانی کا ٹاسک تھا...پہلے ہی روز نیوز ڈیسک کے دوستوں سے تعارفی نشست میں نیوز ایڈیٹر صاحب سے پوچھا بھائی !کراچی سے اخبار کی کامیابی کا کیا بہترین طریقہ ہو سکتا ہے...؟انہوں نے" فی البدیہہ" من پسند فارمولہ پیش کرتے ہوئے کہا کچھ خاص نہیں یہاں تو بس "بھائی "کی تصویر بکتی ہے...لیڈ کے دائیں یا بائیں طرف تصویر لگاؤ اور جتنا مرضی اخبار بیچ لو....میں مسکرایا تو انہوں نے "تیوڑی" چڑھا کر سمجھایا کہ یہ پنجاب نہیں کراچی ہے کراچی اور کراچی کا اپنا" اسٹائل" ہے.....انہوں نے ساتھ ہی ماضی کا" ڈراؤنا منطر نامہ "سامنے رکھتے ہوئے پھر "سمجھایا" کہ یہاں تو وہ وقت بھی تھا کہ ہم سر شام ہی لیڈ تیار کر لیتے مگر ہلاکتوں کی حتمی تعداد کے لیے آخری لاش کا آخری وقت تک انتظار کرنا پڑتا تھا...ہم نے کہا کہ بھائی سب باتیں درست لیکن تصویر ہمیشہ تو نہیں بکتی ...آج نہیں تو کل اس بد قسمت شہر کی تصویر بدلے گی...ہم" بھائی" کی تصویر کے بغیر ہی اخبار بیچیں گے...اُنہوں نے پھر "وارننگ" کے انداز میں کہا کہ دیکھ لیں بھائی کراچی کا اپنا "اسٹائل "ہے...
"نیوز ایڈیٹر بھائی" کی بات سچی تھی کہ اس زمانے میں بھی "بھائی" کے رات گئے خطاب کی کوریج تک کراچی کے اخبارات کی کاپی پریس نہیں جا سکتی تھی...لاہور کے سنٹرل نیوز روم میں قائم کراچی ڈیسک پر" اِسی تقریر" کے انتظار میں کبھی کبھی فجر کی اذان دفتر میں ہی ہو جاتی تھی.۔.خیر ہمارا شام کا یہ شاندار اخبار شروع ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خوب پذیرائی پانے لگا...ویسے تو" نیوز ایڈیٹر بھائی" کی کم ہی چلتی مگر وہ موقع پاتے ہی "بھائی" کی تصویر چھاپنے کا جواز پیدا کر لیتے...کبھی کبھی یہ تصویر چھپتی بھی مگر مجموعی طور ہم نے اس تصویر کے بغیر ہی یہ اخبار بیچا اور خوب بیچا...مجھے یاد ہے اُن دنوں ایک بڑی دینی جماعت کے سربراہ کے قتل پر یہ اخبار تین مرتبہ چھپا..."نیوز ایڈیٹر بھائی"نے" حالات "دیکھ کر تصویر کی گردان تو کم کر دی مگر بات بات پر" یہ کراچی اسٹائل ہے "کی رٹ لگا کر اپنا بوجھ ہلکا کر لیتے...وہ" الف" کا ڈنڈا پکڑے رہتے اور جہاں" الف" کی خلاف ورزی ہوتی سب ایڈیٹرز کی ایسی تیسی پھیر دیتے کہ یہ پنجاب نہیں کراچی ہے.... موصوف اپنی ہر غلطی "یہ کراچی اسٹائل ہے"کے "تکیہ کلام "کے" تکیے" نیچے چھپانے کے ماہر تھے۔..وہ اپنے "اختیارات" استعمال کرتے ہوئے شام کے اخبار کو زندگی بخشنے والی تیز سرخیاں بیک جنبش قلم کالعدم قرار دیتے جاتے اور اپنے مزاج سے ہم آہنگ ڈھیلی ڈھالی سرخیوں کی خود ہی تعریف فرماکر اوکے کر دیتے...ہم حسب معمول ٹوکتے تو کہتے "یہ کراچی اسٹائل ہے"...کبھی مان جاتے تو کبھی اڑ جاتے...ہم بھی گنجائش کے مطابق سمجھوتہ کرلیتےکہ کہیں"لاہورکراچی مناظرے" میں کاپی ہی لیٹ نہ ہو جائے...اختیارات سے یاد آیا کہ ایک رات جناب اطہر عارف مرحوم نے بھی اپنے" اختیارات" استعمال کرتے ہوئے ہمارے "نیوز ایڈیٹر بھائی" کو کھڑے کھڑے ہی" معطل "کر دیا تھا ...ہوا یوں کہ وہ "نیم خوابی "کی حالت میں نیوز روم میں آگئے اور کہا آج سے آپ نہیں فلاں بھائی شفٹ کرینگے...اُنہوں نے ایک دو اور بندوں کی بھی خوب کلاس لی...اُن کے اِس" ایکشن "پر رات کے آخری پہر دفتر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی...صبح ہوتے ہی چیف ایڈیٹر صاحب نے اسی پاداش میں اِنہیں لاہور طلب کر لیا...کراچی ائیرپورٹ پر نا جانے اِنہیں کیا سوجھی کہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خالد چودھری صاحب نے آپ کو اِسی ہوائی اڈے پر you are my son کہا تھا تو میں کہتا ہوں you are my grandson اور گلے ملتے ہوئے ڈیپارچر لاؤنج کی طرف چل دیے...اللہ ان کے درجات بلند کرے کیا ہی زندہ دل آدمی تھے...
جناب خالد چودھری اور اطہر عارف صاحب کے بعد کوئی اڑھائی دو مہینے بعد ہماری بھی واپسی ہوئی تو ہم نے "نیوز ایڈیٹر بھائی "سے" الوداعی معانقہ" کرتے ہوئےسرگوشی کی کہ حضور غلطی کوتاہی کی معافی...ہم نے آپ کے "بھائی" کی تصویر نہ بیچ کر آپ کے جذبات" مجروح" کیے لیکن سچی بات یہی ہے کہ "بھائی"ہوں یا کوئی اور،کسی کی تصویر سدا نہیں بکے گی کہ یہی قانونِ قدرت ہے...ہاں مگر اللہ کے منتخب بندے اس سے مستثنی ہیں...قیامت تک ان کا سکہ چلتا رہے گا..."نیوز ایڈیٹر بھائی" تو صرف ایک حوالے کے طور پر یاد آگئے حقیقت تو یہ ہے کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سمیت ملک کے ہر حصے میں ہر کسی کا اپنا اپنا "بھائی" اور اپنا اپنا" بابا" ہے جس کی تصویر بیچتے بیچتے ہمیشہ زندگیاں بتا دیتے ہیں...قیامِ پاکستان سے اب تک یہ "للکار اور یلغار "سوائے" تصویر فروشی" کے اسی جھگڑے کے کچھ نہیں. ..
اٹھارہ برس گذر گئے" نیوزایڈیٹر بھائی" سےکبھی رابطہ نہیں ہوا مگر اللہ کی قدرت دیکھئے کہ روشنیوں کے شہر کی تصویرہی بدل گئی...وہ شہر جہاں صرف ایک ہی نام چلتاتھا آج کوئی کھلے عام وہ نام زبان پر لانے کو تیار نہیں...وہ شہر جہاں ایک ہی تصویر بکتی تھی آج کوئی کھلے عام اُس تصویر کی طرف دیکھناگوارانہیں کرتا...وہ شہرجہاں کےٹی وی چینلز اوراخبارات جس خبرکےبغیرنشراورشائع نہیں ہوتےتھےآج وہ نام سکرین پر چل سکتا ہےنہ کسی اخبارمیں چھپ سکتاہے...وہی قرآن مجیدکااَبدی پیغام کہ ہم لوگوں کےدرمیان دنوں کوبدلتےرہتےہیں، یہاں کوئی "حرف آخر "نہیں..اللہ نہ چاہے تو کسی کی کرسی مضبوط ہے اور نہ کسی کا مکا چلتا ہے...
گردشِ ایام کی عالمگیر سچائی کا سوچتے سوچتے میں وطنِ عزیز کے ماضی میں کھو گیا... بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی رحلت اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کےبعد سول اور فوجی حکمرانوں کے عروج و زوال کی تصویر آنکھوں کے سامنے گھوم گئی...خواجہ ناظم الدین، ملک غلام محمد ، سکندر مرزا ، محمد علی بوگرہ ، چودھری محمد علی، حسین شہید سہروردی ، آئی آیی چندریگر ، فیروز خان نون ، جنرل ایوب ، جنرل یحیٰ خان اور ذوالققار بھٹو کا ڈنکا بجتا تھا...
ہوش سنبھالا تو ہر طرف جنرل ضیا الحق کی آمریت کے سائے تھے...اخبارات ان کے گن گاتے...ملک کے واحد سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر ان کی تصویر چلتی اور آواز گونجتی تھی...پھر ان کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم محمد خان جونیجو بھی" دیکھے سنے" جانے لگے...جنرل صاحب طیارہ حادثےمیں لقمہ اَجل بنےتو صدر اسحاق خان کچھ دیر کےلیے"اہم"ہو گئے...پھر محترمہ بے نظیر بھٹو چاروں صوبوں کی زنجیر بن کر اُبھریں ...وہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں تو دنیا بھر میں اُن کا چرچا ہوا... فاروق لغاری بھی بیورو کریٹ سے صدر پاکستان ہو گئے. . پھر نواز شریف کی تصویر مقبول ہوئی اور وہ بھی وزارت اعلی کے بعد وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوئے...پھر بی بی کا زمانہ آگیا اور اس کے بعد میاں صاحب کو عروج ملا... پھر حالات نے پلٹا کھایا اور کئی سال تک جنرل پرویز مشرف کی تصویر بکی...ظفراللہ جمالی..چودھری شجاعت...شوکت عزیز بھی نامور ہوئے.۔.بے نظیر کی شہادت کے بعد ایک زرداری سب پر بھاری ہوئے...یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی قسمت جاگی...پھر نواز شریف کے مقدر بدلے اور وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے...کچھ عرصے کے لیے شاہد خاقان عباسی کو بھی باری ملی...اب وزیر اعظم عمران خان اور صدر عارف علوی کی تصویر بک رہی ہے..."تصویر بردار" بھائی چیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اگلے پانچ سال بھی یہی تصویر بکے گی...ہر دور میں ایسی" جگالی "کرنے والے خوشامدی بہت مل جاتے ہیں مگر کل کس کا راج ہوگا اور کون تاراج... اللہ ہی بہتر جانتا ہے...یہی قانون قدرت ہے کہ رہے نام اللہ کا...ہوا کے گھوڑے پر سوار حکمرانوں کے عقل کل رکھنے والے" مصاحب" کب کسی کی سنتے ہیں ہاں مگر کراچی کے وہ "نیوز ایڈیٹر بھائی " مل جائیں تو آج بھی ادب کےساتھ ان سے یہی عرض کریں کہ بھائی آپ کی" اپنے بھائی" سے وابستگی اپنی جگہ مگر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ کسی کی تصویر سدا نہیں بکتی ...ہاں مگر اللہ کے منتخب بندے اس سے مستثنیٰ ہیں... اس دھرتی پر قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ بھی اِنہی چنیدہ لوگوں میں سے ہیں...اس ملک میں صرف ایک ہی فکر چلے گی اور وہ ہے فکر اقبالؒ اور ایک ہی تصویر بکے گی اور وہ ہے بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کی تصویر.......!!!
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔