خان صاحب اپنی جماعت کے مخلص کارکنوں سے مشاورت کر لیں
اِس وقت پاکستان میں سحر کا وقت ہے، یہاں رات کے ساڑھے دس بجے ہیں، میں ابھی ابھی ایک عشایئے میں شرکت کے بعد واپس آیا ہوں، میرے داماد عظمت کے دوستوں نے اصرار کرکے یہ اہتمام کیا تھا۔ یہ دعوت ”زریاب ایگزیکٹو بفے“ نامی ریسٹورنٹ میں تھی اور یہاں کا ماحول بہت اچھا تھا۔ ایشیائی خصوصاً پاکستانی اپنی فیملیوں کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ مینیو نے لاہور اور اسلام آباد کی یاد دلا دی، ریسٹورنٹ والوں کا یہی کمال تھا کہ اْنہوں نے سلاد سے میٹھے اور باربی کیو سے مختلف نوعیت کے دیگر کھانوں کا وافر انتظام کیا ہوا تھا، یہاں مجھے اپنے شہر سے مختلف یہ بات نظر آئی کہ ابتداء میں ایک انتظار گاہ ہے، آنے والے گاہکوں کو یہاں انتظار کرنا ہوتا ہے۔ کاؤنٹر پر فی کس ادائیگی کے بعد رسید حاصل کر کے آنے والے ہال میں میز خالی ہونے کے منتظر رہتے ہیں، پھر مددگار اْن کو نشست پرلے جاتا ہے، یوں ایک نظم سا قائم رہتا ہے، یہ ذکر بلاوجہ نہیں، یہ 10 سے 12 افراد پاکستان کے مختلف شہروں بلکہ صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں یوں اْن میں آزاد کشمیر سمیت پورا پاکستان موجود ہے۔ سب محنتی لوگ ہیں، ہفتے کے پانچ روز اپنے اپنے کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں تو جمعے کی شب اکٹھے کھانا کھاتے اور گپ لگاتے ہیں جس کے دوران لڈو سے تاش تک کھیلتے ہیں، سب فیملیوں والے ہیں اور یہ اْن کی تفریح ہے، کھانے کے بعد عظمت نے مجھے گھر چھوڑا تو یہاں خواتین کا اجتماع تھا۔ قریباً تین گھروں سے مائیں بچوں کے ساتھ موجود تھیں، بچے کھیل رہے اور یہ سب باتوں میں مصروف تھیں، یہ تقریب بھی پاکستان کے حالات سے ماورا نہ رہی، ریسٹورنٹ میں ایک صاحب نے مجھے مخاطب کیا اور وہی سوال کیا کہ آپ پاکستان سے آئے ہیں، وہاں کے حالات کیا ہیں؟ دوسرے صاحب نے اپنے تیسرے ساتھی کی طرف اشارہ کرکے کہا یہ صاحب عمران خان کے بہت حامی ہیں اور بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے، میرے لئے پھر مشکل تھی کہ یہاں بھی دو متحارب فریقوں کے درمیان پھنس کر رہ گیا تھا بہرحال جواب تو دینا تھا اور مجبوراً کہنا پڑا کہ خان صاحب کی خطرناکی نے مشکل میں ڈال رکھا ہے، اگرچہ ہمارے سب سیاستدان عوام کا نام تو لیتے ہیں، ملکی سلامتی اور معاشی عدم استحکام کی بات کرتے ہیں لیکن ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے، الزام لگاتے اور بیٹھ کر بات نہیں کرتے، سب اقتدار کی بھوک میں تڑپ رہے ہیں اور اِس میں خان صاحب کا حصہ زیادہ لگتا ہے جو اقتدار میں ہوتے ”چوروں، ڈاکوؤں“ سے ہاتھ تک ملانے کو تیار نہیں تھے اور اقتدار سے باہر آکر بھی مذاکرات پر آمادہ نہیں اور ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو قابل قبول نہیں ہوتیں مثلاً اْن کا کہنا ہے کہ مذاکرات عام انتخابات کے انعقاد پر ہو سکتے ہیں اور اْس کے لئے اتحادی حکومت پہلے تاریخ کا اعلان کرے، بہت سارے دانشمند حضرات نے بار بار کہا کہ اگر انتخابات کی تاریخ دے دی جائے تو پھر مذاکرات کس بات پر ہوں گے؟ بہتر عمل تو یہی ہے کہ مذاکرات شروع ہوں اور اِس دوران انتخابی عمل کا مطالبہ کیا جائے لیکن وہ آمادہ نہیں ہیں اور بزور تبدیلی چاہتے ہیں جو اْن کے اقتدار میں ہوتے بھی نہیں آ سکی تھی۔
میں اْن حضرات کو مطمئن نہ کر سکا کہ وقت کم اور بات طولانی تھی لیکن گھر آنے تک یہ سوچتا رہا: ”یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے“ ہر پاکستانی پریشان ہے اگر کسی کو پریشانی نہیں تو یہ ہمارے سیاسی قائدین ہیں جو قوم و ملک کے غم ہی میں ”موٹے“ ہوتے چلے جا رہے ہیں، اْن پر کوئی بات اثر انداز نہیں ہوتی۔ اب ہمارے خان صاحب ہیں جو عدم اعتماد کے فوراً بعد اسمبلی سے باہر آ گئے اور اب تک مصر ہیں کہ قومی اسمبلی سے اْن سب کے استعفے منظور کئے جائیں جنہوں نے ایک ساتھ بائیکاٹ کیا اور ایوان سے اکٹھے باہر آگئے تھے۔ یہ سلسلہ جاری ہے کہ اب اْنہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جب تک گورنر پنجاب کی طرف سے چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے نہیں کہا گیا تب تک وہ تاریخ دینے پر مصر تھے اور اْنہوں نے اعلان کر دیا تھا کہ 20 دسمبر کو حتمی تاریخ دی جائے گی۔ تحریک انصاف کی حمایت سے بننے والے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی بھی اعلان کرتے تھے کہ عمران خان جب کہیں گے اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی، اگرچہ اْن کے عمل سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دل سے ایسا نہیں چاہتے اور اْنہوں نے اپنی طرف سے مشورہ بھی دیا تھا تاہم حالات نے از خود اْن کی طرف پلٹا کھایا اور عدالت عالیہ سے اْن کو 11 جنوری تک ریلیف مل گیا۔ عدالت عالیہ کی طرف سے گورنر کا حکم معطل کرکے عبوری بحالی کے حکم میں اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت نہیں کی گئی لیکن منشاء یہی ہے کہ ایسا ہو جائے۔ عمران خان، فواد چودھری اور دوسرے رہنماؤں سمیت خود عمران خان، چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی بھی ببانگ دہل 11 جنوری سے قبل اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کرتے ہیں لیکن جونہی مجلس وحدت المسلمین اور تحریک انصاف کی ایک ایک خاتون رکن نے چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ہی یہ خدشہ بڑھ گیا کہ چند حامی اراکین غیر حاضر ہو کر اعتماد کے ووٹ کی تحریک کو ناکام بنا دیں گے اور چودھری پرویز الٰہی فارغ ہو جائیں گے تو پینترا بدل لیا گیا۔ چودھری پرویز الٰہی نے کہا گورنر کا حکم غیر قانونی ہے وہ اْسے تسلیم نہیں کرتے، اب عمران خان نے جو اعتماد کا ووٹ لینے کا دعویٰ اور اعلان کر رہے تھے، واضح طور پر اجتناب اختیار کر لیا اور کہتے ہیں کہ 11 جنوری کو عدالت حکم دے گی تو اعتماد کا ووٹ بھی لیں گے۔ اْنہوں نے یہ بات اِس وقت کہی جب وحدت المسلمین کے آغا ناصر اْن سے مل کر حمایت کا اعلان کر چکے اور ووٹ اْن کے حق میں ہو گیا تھا۔ یوں باکل واضح ہو گیا کہ سب اچھا نہیں ہے اور ایک بار پھر عدالت عالیہ ہی سے رعائت کے طلبگار ہیں، اِس عدالت نے بھی بہرحال جو فیصلہ کرنا ہے وہ آئین اور قانون ہی کے تحت کرنا ہوتا ہے اور اب جو حالات بن رہے ہیں یا بن چکے کہ اراکین اعلانیہ حمایت سے دستبردار ہوئے اور خدشات بھی موجود ہیں تو ایسے میں عدالت شاید لامتناہی ریلیف نہ دے سکے، اب تو حکومت اور گورنر کے علاوہ دوسروں کا موقف سننا اور دلائل کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہوگا، ابھی اوپر ایک عدالت ہے اور میں پہلے ہی عرض کر چکا تھا کہ معاملہ بالآخر عدالت عظمیٰ تک جائے گا، اب دیکھتے ہیں ”کیا گزرتی ہے قطرے پر گہر ہونے تک“۔۔۔
بات یہاں تک بھی رکتی نظر نہیں آتی، خان صاحب خود اپنے سخت گیر موقف اور مسلسل اعلانات کی وجہ سے بند گلی میں آ گئے ہیں اور پھر سے تحریک کا اعلان کر دیا ہے۔ دعویٰ پھر بڑا کیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ ہر حلقہ نیابت میں ایک ایک ہزار کارکن تیار کئے جائیں جو عوام کو ساتھ لے کر مظاہرے کریں، اْس کے علاوہ ڈور ٹو ڈور مہم بھی چلائی جائے۔۔۔ معذرت کے ساتھ عرض کر دوں کہ خان صاحب بلاشبہ ایک مقبول لیڈر بن چکے ہیں لیکن اب حالات اْن کے موافق نہیں ہیں، اگر وہ لانگ مارچ سے اب تک اپنی جماعت کے احتجاجی جلسوں کی حقیقی ویڈیوز دیکھ لیں اور اپنی ہی جماعت کے حقیقی کارکنوں سے مشاورت کرلیں تو اْن کو معلوم ہو جائے گا کہ اب حالات موافق نہیں ہیں کہ اب ”فرشتے“ رونق بڑھانے نہیں آئیں گے اور سب اپنے زورِ بازو پر کرنا ہوگا، اِس لئے وہ ملک اور قوم پر رحم کریں، مصالحت کی طرف آ جائیں۔