ماحول کی بہتری کیلئے الیکشن ملتوی ہو جائیں تو آسمان نہیں گر پڑیگا: فضل الرحمن 

  ماحول کی بہتری کیلئے الیکشن ملتوی ہو جائیں تو آسمان نہیں گر پڑیگا: فضل ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                                                         اسلام آباد ، کابل ( مانیٹرنگ ڈیسک ، نیوز ایجنسیاں )جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ماحول کی بہتری کیلئے اگر انتخابات ملتوی ہوجائیں تو آسمان نہیں گر پڑے گا۔جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ الیکشن ملتوی کرنے کی سینیٹ کی قرارداد ہمارے مو_¿قف کی تائید ہے، الیکشن کا ماحول نہیں ہے ہم جلسوں میں نہیں جا سکتے، ہمارے جلسوں میں شرکت پر لوگوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کیا جائے، ماحول کو اس قابل بنایا جائے کہ ہم ووٹر کے پاس جا سکیں، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کا ماحول نہیں ہے البتہ اگر ہرصورت انتخابات مسلط کیے جاتے ہیں تو ہم الیکشن میں حصہ لیں گے، ہم الیکشن سے بھاگنے والے نہیں ہیں۔اس کے علاوہ دورہ افغانستان کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ افغانستان کے دورے میں ہوسکتا ہے کوئی حالات کی بہتری پیدا ہو جائے۔ دریں اثنا مولانا فضل الرحمان افغانستان کے سلسلے میں وفد کے ہمراہ کابل پہنچ گئے، مولانا فضل الرحمان افغان حکومت کی خصوصی دعوت پر کابل گئے، افغانستان میں قیام کے دوران خطے سمیت امن وامان کی صورتحال پر بات چیت ہوگی۔اس سے قبل ایک انٹرویو میںمولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دورہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کا معاملہ مذاکرات کا حصہ ہوگا،تعلقات میں بہتری کا انحصار دونوں ممالک پر ہے تاہم میں اپنا کردار کرونگا،طالبان کے امیر کی دعوت پردورہ کررہا ہوں، ان سے ملاقات کےلئے قندھار بھی جاﺅنگا،خواتین تعلیم کا معاملہ اسلامی امارت پر چھوڑ دیا جائے، وہ مسئلہ حل کرلینگے، طالبان کے امیر شیخ ہبت اللہ سے ملاقات بھی کریں گے، مجھے جو دعوت نامہ ملا ہے وہ تو امیر کی اجازت سے مجھے بھیجا گیا ہے اور اصل دعوت تو ان کے امیر کی جانب سے آئی ہے اور امیر سے ملاقات بھی ہوگی۔۔ انہوںنے کہاکہ جب تک ہم پاکستان اور افغانستان کے مفادات اور مصلحتوں کو مدنظر نہیں رکھیں گے تو اس سلسلے میں میں نے پاکستان کے متعلقہ ذمہ داران کے ساتھ رابطہ کیا جن میں وزارت خارجہ اور حکومتی رہنما شامل ہیں،حکومت اس سلسلے میں میری ساتھ رابطے میں ہے۔ انہوںنے کہاکہ وزارت خارجہ میں مجھے 3 جنوری کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کیاگیا،پاکستان کے کیا مطالبات ہیں،اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان اس دورے کو اہمیت دے رہا ہے۔اس سوال پر کیا آپ نے حکومت کا پیغام طالبان حکومت کو پہنچانا ہے تو مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارا ان سے جو تعلق ہے اس تعلق کو دونوں ممالک کے مفاد کےلئے استعمال کیا جائےگا اور ہم حکومت پاکستان کا موقف اور جو ہم نے ملاقاتوں میں اخذ کیا ہے وہ طالبان حکومت کو پہنچائیں گے۔اس سوال پر کہ کیا آپ تحریک طالبان پاکستان کا مسئلہ افغان حکومت کےساتھ اٹھائیں گے تو مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس کا امکان ہے،ہم اپنا تعلق خیر کےلئے استعمال کریں گے۔ پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان خراب تعلقات کے حوالے سے اس سوال پر کہ کیا ان کا دورہ نتیجہ خیز ہوگا تو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ اس کا انحصار دونوں فریقوں پر ہے، اگر ارادہ برادرانہ تعلقات اور دوستی کی بحالی ہو تو پہاڑ بھی مٹی بن سکتا ہے اور اگر نیتوں میں فرق آتا ہے تو چھوٹی سی ریت بھی پہاڑ بن جاتا ہے،یہ دونوں حکومتوں کے ارادوں اور عزائم پر منحصر ہے،جو اشارے ہمیں متعلقہ حکام سے ملے ہیں کہ پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ دورے کے مثبت نتائج سامنے آئےں اور طالبان نے مجھے براہ راست دعوت دی ہے تو اس سے بھی آپ دورے کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔جب مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ طالبان کے ساتھ خواتین کی تعلیم پر پابندی اور روزگار کا معاملہ اٹھائیں گے تو انہوں نے کہا کہ خواتین کے تعلیم سے متعلق شریعت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن داخلی معاملات، امن وامان، تجارت، معیشت ، تہذیب معاشرتی اصطلاحات ہر ملک کا حق ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسلامی امارت کو یہ احساس ہے کہ انہوں نے اس دنیا کے ساتھ چلنا ہے اور ان کو ان ضروریات کا احساس ہے اور ہمیں کیا ضرورت ہے کہ جب فلسطین میں بچوں اور عورتوں کو قتل عام کیا جارہا ہے ، جنگی جرائم نسل کشی ہورہی ہے اور ان حالات میں بھی افغانستان میں تعلیم کا رونا رویا جا رہا ہے انسانی حقوق کی بات ہورہی ہے لیکن امریکی جیل گوانتانامو جزیرے میں اور افغانستان کے شبرغان جیل میں سینکڑوں طالبان کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا، امریکی جیل بگرام میں کیا ہوتا رہا ہے، عراق کی ابو غریب جیل میں کیا ہو تھا کیا یہ انسانی حقوق نہیں تھے؟ طالبان ایک نظام بنا رہے ہیں اور ایک مرحلے کو نہیں پہنچے ہیں اور کچھ پہنچ جائیں گے لیکن اس سے پہلے ایک ہوا بنائی ہوئی ہے ،انسانی حقوقِ میرے خیال میں ایک ملک کو اپنی حالت پر چھوڑ دیں تاکہ وہ اور بغیر کسی دباﺅ کے اپنا سفر جاری رکھے وہ تمام معاملات کو سمجھنے ہیں۔

فضل الرحمن

مزید :

صفحہ اول -